• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کا اہم اور کامیاب دورہ مکمل کرکے واپس آ چکے ہیں ، انہوں نے خدشات پر پانی پھیرتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی، عالمی اداروں کی ناانصافیوں کا تذکرہ کیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ کشمیر یا اسرائیل پر اہم بات چیت چل رہی ہے مگر اس خدشے کا وجود اس وقت ختم ہوگیا جب وزیراعظم نے او آئی سی کے سیکرٹری کو جگایا کہ حضور کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں پر چپ رہنا مناسب نہیں، ناانصافیوں پر مجرمانہ خاموشی درست نہیں۔

آپ وزیراعظم عمران خان سے سو اختلاف کر سکتے ہیں مگر ان کی تین باتوں کو ہر صورت تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ نمبر ایک، جب بھی موقع ملا انہوں نے کسی کی پروا کئے بغیر عالمی اداروں کی ناانصافیوں کا تذکرہ کیا، خواہ وہ اقوام متحدہ کا فورم ہی کیوں نہ ہو۔ نمبر دو، وہ مدینے میں اترتے وقت جوتے جہاز ہی میں چھوڑ آتے ہیں، ان کا یہ عمل انہیں بڑے بڑے عاشقوں سے ممتاز کر دیتا ہے۔ اس سے قبل احترام کا یہ عالم کسی حکمران میں نہیں دیکھا گیا۔ وہ ایک طرف درِ نبیؐ پر آنسو بہاتے ہیں تو دوسری طرف عالمی اداروں میں اپنے رسولؐ کی محبت میں بولتے ہیں۔ نمبر تین، وزیراعظم عمران باہر کے علاوہ اپنے ملک میں ہونے والی ناانصافیوں پر بھی بولتے ہیں۔ انہوں نے عدالتوں اور الیکشن کمیشن پر تنقید کی، قوم کو صاف بتایا کہ ہمارا نظام انصاف مافیاز کو چھوٹ دیتا ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ امیر طبقات مفادات کے لئے ایک ہو جاتے ہیں۔ ایچی سن اور آکسفورڈ سے پڑھنے والے نے برملا کہا کہ پاکستان کی ترقی میں انگریزی نظام تعلیم حائل ہے، یہ نظام طبقات میں تفاوت پیدا کرتا ہے۔

جونہی وزیراعظم نے انصاف فراہم کرنے والے اداروں پر تنقید کی تو لوگوں نے سوشل میڈیا پر وزیراعظم اور ججوں کی تنخواہوں کا موازنہ شروع کردیا، لوگوں نے قوم کو یہ بھی بتانا شروع کردیا کہ پاکستانی نظام انصاف کا دنیا میں کونسا نمبر ہے اور تنخواہوں کے سلسلے میں کونسا نمبر ہے، نمبروں کی اس دوڑ میں لوگوں نے یہ موازنہ بھی پیش کیاکہ دنیا کے مختلف ملکوں میں جب کسی عدالت میں ججوں کا مقدمہ آتا ہے تو جج اپنے ساتھی کو کس طرح انصاف کے کٹہرے میں لاتے ہیں اور ایسا ہی مقدمہ جب وطن عزیز میں آ جائے تو کس طرح جج اپنے ساتھی کو ’’انصاف‘‘ فراہم کرتے ہیں اور پھر قوم کی طرف سے کس طرح ’’واہ واہ‘‘ کی جاتی ہے۔

پاکستان کے حکمران عام طور پر سفیروں کی طرف رخ کم ہی کرتے ہیں، عام لوگوں کے مسائل کا تذکر ہ کرنا محال سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ سارے سفیر نکمے نہیں ہوتے اور یہ بھی سچ ہے کہ سب سفیروں کا رویہ پاکستانی بھائیوں کے ساتھ درست نہیں ہوتا۔ پچھلے دنوں عمران خان سفیروں پر خوب گرجے برسے، انہوں نے بہترین کام کرنے والوں کی تعریف بھی نہ کی، شاید انہیں غصہ زیادہ تھا مگر اس سچ پر کوئی شک نہیں کہ ہمارے بعض سفیر اپنے پاکستانی بھائیوں کے مسائل حل کرنا تو درکنار، انہیں ملنا پسند نہیں کرتے، بہت سے پاکستانی غیر ملکی جیلوں میں رل جاتے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، ان کا سب سے بڑا قصور پاکستانی ہونا بن جاتا ہے، اکثر پاکستانی سفیر ہموطنوں کی خبر ہی نہیں لیتے، انہیں بتایا جائے تو وہ پھر بھی متحرک نہیں ہوتے۔

وزیراعظم کی سفیروں والی تقریر سے ایک دن پہلے مجھے ایک ایسے ہی مظلوم قیدی سے متعلق ثمینہ خاور حیات نے بتایا۔ ایک زمانے میں ثمینہ خاور حیات کی پنجاب اسمبلی میں دھوم ہوتی تھی، انہوں نے اپنی پارٹی نہیں بدلی، وہ آج بھی شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی پارٹی میں ہیں بلکہ وہ مسلم لیگ پنجاب کے انسانی حقوق کے شعبے کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بزنس مین آصف حفیظ کی کہانی سنائی، مزید گواہی کے لئے مرتضیٰ علی شاہ، پی جے میر سمیت چند اور صحافیوں کے پروگرام بھیج دیے۔63 سالہ آصف حفیظ بھی کمال آدمی ہے، لاہور سے دبئی گیا، سونے کا کاروبار کیا، قسمت مہربان ہوئی، چالیس سال میں دولت کے ڈھیر لگ گئے، اس نے دبئی کے علاوہ برطانیہ میں بھی جائیدادیں خریدیں، یہی جائیدادیں اس کی دشمن بن گئیں، پاکستان کے خلاف کام کرنے والے ملک ہر وقت کسی نہ کسی پاکستانی کو پھنسانے کے چکر میں ہوتے ہیں، جب اس کا دبئی میں سونے کا اتنا بڑا کاروبار تھا تو یقیناً بہت سے دولت مند اس کے ساتھ رابطے میں تھے، پھر ایک دن ایسا آیا کہ کچھ غیر ملکی لوگ اسے دبئی میں پوچھنے لگے کہ دائود ابراہیم سے متعلق بتائو، اس پر آصف حفیظ کا ایک ہی جواب تھا کہ مجھے دائود ابراہیم کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ انہیں دنوں میں آصف حفیظ چھٹیاں گزارنے برطانیہ گیا پھر اس کی قسمت میں ایک سیاہ دن آتا ہے جب برطانوی پولیس کسی ثبوت کے بغیر گاڑیوں کا ایک قافلہ لے کر اسے گرفتار کرنے آتی ہے، آصف حفیظ گرفتار ہوکر قیدی بن جاتا ہے، چار سال گزرنے کے باوجود برطانوی پولیس ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ آصف حفیظ کی گرفتاری، اس کی قید برطانوی نظام انصاف پر سوالیہ نشان ہے، یہ قید یورپی عدالتوں کے عدل پر حیران ہے، یہ قید انسانی حقوق کے عالمی اداروں، عدالتوں اور تنظیموں کا ماتم کر رہی ہے۔ یہ قید برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر سے بھی پوچھ رہی ہے کہ تم نے اپنے ہم وطن قیدی کے لئے کیا کیا؟ یہی سوال آصف حفیظ جیسے سینکڑوں قیدی حکومت پاکستان سے کر رہے ہیں، انصاف کا قتل پتہ نہیں کہاں کہاں ہو رہا ہے کہ بقول سرور ارمان ؎

عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں

بےگناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی

تازہ ترین