• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غضب خدا کا، 48 گھنٹے کے وقفے سے بابائے قوم پر دو حملے! ایک حملہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 150کلومیٹر دور زیارت کے مقام پر کیا گیا اور دوسرا حملہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے صرف 30 کلو میٹر کے فاصلے پر واہ چھاؤنی میں کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا تاریخ میں مقام مسلمہ ہو چکا۔ انہیں اب اس نوع کی بے معنی حرکتوں سے نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ آج قائد اعظم محمد علی جناح پر کسی رکیک حملے کا مقصد دراصل پاکستانی ریاست کی اس متفقہ علامت کو نشانہ بنا کر پاکستان کے رہنے والوں کے خلاف اپنے علانیہ یا غیر علانیہ سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانا ہے۔ ریاست اور اس کے اہلکاروں سے برسرپیکار بلوچ عناصر کے مطالبات کی سیاسی اصابت یا کج روی سے قطع نظر، 14 جون 2013 ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی یاد سے منسوب زیارت ریذیڈنسی پر بزدلانہ حملے سے اہل پاکستان کے جذبات کو سخت اذیت پہنچی ہے۔ اس حملے میں ایک معصوم چوکیدار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور قومی ورثے کا ایک اہم حصہ یعنی زیارت ریذیڈنسی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
بلوچستان میں موجودہ بے چینی کے دس برسوں میں پاکستان کے تمام صوبوں میں موجود باشعور سیاسی کارکنوں نے بلوچ حقوق کی مکمل حمایت کی ہے۔ ہماری تاریخ میں صوبائی حقوق کے لیے کسی ایک صوبے سے اٹھنے والی کسی تحریک کو قومی سطح پر کبھی ایسی بھرپور حمایت نہیں ملی۔ زیارت ریذیڈنسی پر حملہ آور ہونے والے عاقبت نااندیش عناصر نے اس مجرمانہ فعل سے اپنی جدوجہد کا اخلاقی جواز تباہ کیاہے۔ طاقت ور ریاستوں سے برسرپیکار سیاسی گروہوں کا سب سے بڑا اثاثہ ضمیر انسانی سے ملنے والی اخلاقی حمایت ہوتا ہے۔ الجزائر سے لے کر فلسطین تک اور جنوبی افریقہ سے کشمیر تک حریت پسند اپنے مطالبات کی وسیع تر اخلاقی حمایت کے بل پر ہی جدوجہدکرتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری شورش کو زیارت ریذیڈنسی پر حملے سے ایسا نقصان پہنچا ہے کہ اب یہ ابھارناگزیر طور پر اپنے منطقی انجام سے دوچار ہو جائے گا۔ انتہا پسند قوم پرستی کا اصل نقصان یہی ہے کہ یہ اپنے پیرو کاروں کو انسانی اجتماع کی پیچیدگیوں ، زمینی حقائق اور وسیع تر سیاسی حرکیات سے غافل کر دیتی ہے۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کا اس سے زیادہ بھونڈا انداز کیا ہو سکتا تھا جو پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سیکرٹری اکرم شاہ کاکڑ نے اپنایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ زیارت ریذیڈنسی برطانوی غلامی کی یادگار تھی اور بلوچ عسکریت پسندوں نے رابرٹ سنڈیمن کے ہاتھوں تعمیر ہونے والی اس عمارت کو نذر آتش کر کے قومی حمیت کا اظہار کیا ہے۔ 2دسمبر 1973ء کو پشتون خوا نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ عبدالصمد اچکزئی اسی انتہا پسند اور متشدد قوم پرستی کا شکار ہوئے تھے۔ یہ وہی جماعت ہے جو پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کی پیش رو تھی۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل انتہا پسندوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جماعت کے سیاسی تشخص سے انحراف کر رہے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ قومی اسمبلی میں ہیئت مقتدرہ کی جمہوری عمل میں مداخلت پر جائز آواز اٹھانے والے محترم محمود اچکزئی نے ابھی تک اکرم شاہ کاکڑ کی مذمت نہیں کی۔ بانی پاکستان کی یاد سے وابستہ کسی قومی علامت پر حملہ پاکستان کے جمہوری امکانات پر شب خون کے مترادف ہے۔ محمود اچکزئی کو دو ٹوک لفظوں میں اکرم کاکڑ کے فرمودات سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔رابرٹ سنڈیمن کی اچھی کہی!رابرٹ سنڈیمن جب ایجنٹ ٹو وائسرائے کی حیثیت سے پہلی بار بلوچستان پہنچا تو بلوچ سرداروں نے اس کی بگھی سے گھوڑے کھول کر اپنے ہاتھوں سے اس کی سواری کھینچی تھی۔ مرحوم اکبر بگتی نے برادرم سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ حقیقت تسلیم کی تھی۔ اس تاریخی واقعے کی باز آفرینی کا مقصد بلوچ قوم کی تحقیر کرنا نہیں اور نہ یہ ثابت کرنا ہے کہ ہندوستان کے کسی دوسرے خطے میں بسنے والوں نے یورپی غلامی کے تکلیف دہ عہد میں اس سے بہتر کردار کا مظاہرہ کیا تھا۔ نوآبادیاتی حکمرانی ایک ایسی ذلت تھی جو ہم سب کو اٹھانا پڑی۔ اس سرزمین پر آباد تمام گروہوں میں ایسے کردار موجود تھے، جنہوں نے غیر ملکی آقاؤں سے تعاون کر کے مفادات کی فصل کاٹی۔ نیز یہ کہ ہم سب نے بیرونی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کر کے آزادی حاصل کی۔ آج رابرٹ سنڈیمن کا نام لے کر اپنے قومی ورثے کو تباہ کرنا کہاں کی حریت پسندی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر کوئٹہ کے گورنر ہاؤس کے بارے میں کچھ ارشاد ہو کہ یہ عمارت بھی انگریزوں نے تعمیر کی تھی۔ بلوچستان میں ریلوے لائن بھی انگریزوں نے بچھائی تھی۔ گوادر کی بندرگاہ بھی غیرملکی تعاون سے تعمیر کی جارہی ہے۔ بلوچستان کے متعدد غالی قوم پرست رہنما بھی لندن اور سوئٹزرلینڈ میں بیٹھے ہیں۔
سرحدوں کی ازسرنو لکیریں کھینچنے کا زمانہ گزر گیا۔ آج کی فکر یہ ہے کہ سرحدوں کو قائم رکھا جائے، زبانوں، قومیتوں اور ثقافتوں کا احترام برقرار رکھا جائے، قدرتی اور انسانی وسائل کی تقسیم میں ناانصافی دور کی جائے لیکن تجارت، علوم کے تبادلے اور مہارتوں کی منتقلی کے ذریعے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے تاکہ بے معنی عصبیتوں میں الجھ کر انسانی توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے نوع انسانی کے لیے بہتر معیار زندگی کو ممکن بنایا جا سکے۔ بلوچ ہم وطنوں کے حقوق کی حمایت ہم پر فرض ہے لیکن اگر کوئی ان حقوق کی آڑ میں وفاق پاکستان کے درپے ہو تو اسے جان لینا چاہیے کہ پاکستان کا سیاسی مکالمہ علیحدگی پسندی کی منزل سے آگے بڑھ چکا ہے۔ جس روز زیارت ریذیڈنسی پر حملے کی روح فرسا خبر اخبارات میں شائع ہوئی اسی روز الجامعہ دارالعلوم کراچی کے سربراہ مفتی محمد رفیع عثمانی کے اس خطاب کا دوسرا حصہ اخبار میں شائع ہوا جو انہوں نے واہ آرڈننس فیکٹری کی ایک مذہبی تقریب میں فرمایا تھا۔ رفیع عثمانی صاحب نے اس تقریر میں بہت سے محل نظر نکات بیان فرما دیے جن پر بات ہونی چاہیے۔ ایک جواہرپارہ یہ تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح مولانا شبیر احمد عثمانی کو اپنا باپ کہتے تھے۔ رفیع عثمانی صاحب سے استفسارہے کہ اس بیان کا کوئی حوالہ، کوئی شہادت؟ بابائے قوم نے شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی کو یہ رتبہ کب اور کہاں عطا فرمایا؟ قائداعظم کی ذات ایک کھلی کتاب ہے۔وہ حد درجہ خوددار، زبان و بیان کے معاملے میں غایت درجہ محتاط اور کم آمیز انسان تھے۔ قائداعظم 1876ء میں پیدا ہوئے تھے۔ شبیر احمد عثمانی کی ولادت 1886ء کی ہے۔ قائداعظم سے بعید ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے سے دس برس چھوٹے شبیر عثمانی کو اپنا باپ سمجھا یا قرار دیا ہو۔ اس بیان سے یہ بھی لازم آیا کہ تحریک پاکستان میں اور قیام پاکستان کے بعد شبیر احمد عثمانی کے کردار کا ایک اجمالی جائزہ بھی لیا جائے تاکہ اہل پاکستان کو معلوم تو ہوکہ وہ ہستی کون تھی جسے بقول مفتی رفیع عثمانی بابائے قوم اپنا باپ کہتے تھے۔ مگر کالم کا ورق نبڑ گیا۔ اس موضوع پر آئندہ بات کریں گے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین