• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند ہفتے پیشتر جب میں نے پیپلز پارٹی کی شکست کی ذمہ دار گیارہ رکنی ٹیم کا تذکرہ کیا تھا تو پیپلز پارٹی سمیت پاکستانی سیاست کے کئی دیرینہ اور سرکردہ کرداروں نے مجھے مبارکباد دی تھی مگر کچھ نے کہا تھا کہ نام پورے لکھ دیتے تو پیپلز پارٹی پر احسان ہوتا، میں نے ناموں کی حد تک پردہ داری کی کوشش کی تھی مگر افسوس کہ میری یہ کاوش لوگوں کو اس حوالے سے پسند نہ آسکی کیونکہ لوگ اب ”پردے“ کے قائل نہیں رہے وہ تمام ناموں کو بے نقاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اصل میں ٹیکنالوجی بڑی ترقی کرگئی ہے آپ جو کچھ چھپانا چاہتے ہیں وہ چھپا نہیں سکتے۔ میڈیا آپ کو شک کا فائدہ دے کر بری کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر سوشل میڈیا اس پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اس طرح ”کیتی کرائی کھوہ کھاتے“ چلی جاتی ہے۔ بعض بے چارے تو اس سوشل میڈیا سے بہت تنگ ہیں۔ میں نے آغاز گیارہ رکنی ٹیم سے کیا ہے لہٰذا آج کا پورا کالم ٹیموں کی نذر کرتا ہوں۔ پہلے تو آپ سب کو مبارک ہو کہ قومی کرکٹ ٹیم نے آٹھویں پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ پوزیشن سے مجھے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسائی یاد آگئے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک پوزیشن ، پوزیشن ہوتی ہے پہلی ہو یا آٹھویں۔ لہٰذا آپ سب کو ایک مرتبہ پھر مبارک۔ جنگ کے ادارتی صفحات پر اگر پھولوں کی گنجائش ہوتی تو میں دوچار پھول سجا دیتا کہ اتنی ”شاندار“ کارکردگی کو سراہنے کا حسین طریقہ پھولوں کا علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔ اب پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی کوشش ہے کہ وہ ایسے وقت میں پاکستان جائیں کہ کسی کو خبر نہ ہو ورنہ قوم انہیں اس ”شاندار فاتحانہ“ پرفارمنس پر بہت چومے گی، کسی کو ”چونا “ لگنے کا ڈر نہیں ہے۔ اسد شفیق نے ہمت دکھائی ہے اور وہ منہ اندھیرے ہی پاکستان پہنچ گیا ہے۔ کیا پتہ اسد شفیق باقی ٹیم کو پاکستان کے موسمی حالات سے آگاہ کرنے پہلے آگیا ہو۔ میری اطلاع کے مطابق اسد شفیق نے فون کرکے بتادیا ہے کہ بہت بادل چھائے ہوئے ہیں اور گرج چمک کے ساتھ ”اولے“ پڑنے کا شدید امکان ہے اور یہ ”اولے“ بھی ایسے ہوں گے کہ چہروں کے زخمی ہونے کا قومی امکان ہے۔ میری قومی ٹیم کیلئے ایک تجویز ہے کہ انگلستان کا موسم اچھا ہے، وہاں ٹیم کی کارکردگی بھی سنہری حروف میں لکھی جانے والی رہی ہے۔ اس نازک مرحلے پر کھلاڑیوں کو رسک نہیں لینا چاہئے۔ ویسے بھی ایک ”شاندار فتح“ کے بعد جشن اور پھر آرام کی ضرورت ہوتی ہے میں ”تیر بہدف نسخہ“ آرام ہی کا تجویز کرتا ہوں۔پاکستان کی ایک ٹیم 1992ء میں بھی تھی۔ اس ٹیم نے شروع کی بری کارکردگی کے باوجود ورلڈ کپ میں فتح حاصل کی۔ اس ٹیم کا کپتان عمران خان تھا۔ کپتان نے کسی مرحلے پر بھی ٹیم کا حوصلہ کم نہ ہونے دیا اور یوں پاکستانی ٹیم ورلڈ چیمپیئن بن گئی۔ اب وہ کپتان سیاست کرتا ہے۔ اس مرتبہ وہ الیکشن سے پہلے یعنی فائنل سے پہلے زخمی ہوگیا تھا۔ اس کی ٹیم قومی اسمبلی میں پہنچی مگر اس کے فاسٹ باؤلر جاوید ہاشمی نے پہلے ہی اوور میں نوبال پھینک دی۔ اتنے تجربہ کار باؤلر سے یہ توقع نہیں تھی، اسلئے ہاشمی صاحب اب اس نوبال کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے وضاحتیں کرنے کی بڑی کوشش کی ہے مگر بے سود۔ آخری دلیل کے طور پر وہ یہ بات سامنے لائے ہیں کہ ان کا قصور نہیں، ان کی مٹی ملتانی ہے۔ آج جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو آپ کو مبارک ہوکہ 1992ء کے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان عمران خان نے رکن قومی اسمبلی کے طور پر حلف اٹھالیا ہے۔ اس موقع پر ان کے چاہنے والوں کی خاصی تعداد بھی موجود تھی۔
ٹیموں کا تذکرہ چل نکلا ہے تو ایک ٹیم ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی بھی ہے۔ ایچ ای سی کو چند عناصر نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان عناصر کی تقرریاں اور پھر ملازمت میں توسیع غیرقانونی انداز میں ہوئی۔ اس سے ایچ ای سی کی بدنامی ہوئی۔ ایچ ای سی کی گیارہ رکنی ٹیم کے ارکان پے اسکیل ، ایم پی ون، ٹو اور تھری میں کام کررہے ہیں۔ ایچ ای سی آرڈیننس 2002ء کے باب نمبر2کے سیکشن تین کے مطابق وزیراعظم پاکستان کنٹرولنگ اتھارٹی ہیں۔ گزٹ آف پاکستان کے پارٹ ون سیکشن بارہ کے مطابق وزیراعظم پاکستان ہی تقرریاں کرسکتا ہے۔ وزیراعظم ہی مدت ملازمت میں توسیع دے سکتا ہے مگر کمیشن کی ایک میٹنگ کے بعد ایک آفس آرڈر کے ذریعے مدت ملازمت میں توسیع دے دی گئی جو غیرقانونی ہے۔مذکورہ بالا افسران کی غیرقانونی توسیع کا معاملہ وزارت خزانہ کے ریگولیشن ونگ میں ہے وہ اس کا جائزہ لے رہا ہے۔ اس طرح مدت ملازمت میں توسیع سے گیارہ حقداروں کا حق مارا جارہا ہے۔ یہ تمام چیزیں ایچ ای سی کے علم میں ہیں ۔ وزیراعظم پاکستان نے جس طرح ظفر عباس لک کو خوشامدی اشتہار شائع کرانے پر مسترد کردیا ہے اسی طرح ایچ ای سی کی ٹیم کا بھی علاج ہونا چاہئے۔
تازہ ترین