• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بیرون ملک سفارتخانوں میں تعینات پاکستانی سفیروں کی تذلیل اور بے عزتی کو سفارتی آداب کے منافی قرار دیا جارہا ہے اور اس پر حاضر اور ریٹائرڈ سفیروں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے جن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو کسی صورت یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دنیا کے سامنے اپنے سفیروں کی تضحیک کریں۔ اُن کے بقول وزیراعظم کا رویہ نہ صرف غیر مہذب بلکہ وزارت عظمیٰ کے منصب کے بھی منافی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستانی سفیروں سے وزیراعظم کے خطاب کو ویڈیو لنک کے ذریعے براہِ راست نشر کیا گیا اور اِسے ٹوئٹ بھی کیا گیا۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے پاکستانی سفارتکاروں کے رویے کو مایوس کن قرار دیا اور اسے برطانوی سامراج سے تشبیہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ سفارتکاروں کا پاکستانی شہریوں کے ساتھ نوآبادیاتی دور والا رویہ قابل قبول نہیں، اس سلسلے میں انہوں نے سعودی عرب سمیت دوسرے خلیجی ممالک کی مثالیں دیں جہاں پاکستانی سفارتکاروں کا رویہ اپنے شہریوں سے درست نہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں شکایات کی بنا پر سعودی عرب میں پاکستانی سفیر سمیت متعدد سفارتی افسروں کو سرزنش کرکے واپس بلایا گیاہے۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی سفارتکاروں کے مقابلے میں بھارتی سفارتکار اپنے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے اور اپنے لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے زیادہ متحرک ہیں۔

وزیراعظم کا خطاب دفتر خارجہ کیلئے حیران کن ہونے کے علاوہ مایوس کن بھی تھا جس سے دفتر خارجہ کے افسران کی دل شکنی ہوئی جبکہ دوسری طرف سمندر پار پاکستانیوں نے سفیروں کے ان کے ساتھ طرز عمل اور سرد مہری پر وزیراعظم کی تنقید کو سراہتے ہوئے انہیں مبارکباد پیش کی۔ اِسی طرح وزیراعظم کے اس اعتراف کہ بھارتی سفارتکار ہم سے بہتر ہیں، پر بھارت میں شادیانے بجائے جارہے ہیں اور بھارتی میڈیا اسے شہ سرخیوں کے ساتھ پیش کررہا ہے۔ میرے نزدیک بھارتی سفارتکاروں کی تعریف بالکل بے جا اور بے موقع تھی کیونکہ بھارتی سفارتکاروں کا سالانہ بجٹ ہم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بیرون ملک تعینات پاکستانی سفرا نے دفتر خارجہ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ بیرون ملک تعینات میرے جاننے والے ایک سفیر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم محدود وسائل میں کام کررہے ہیں اورہماری کارکردگی کا بھارتی سفارتکاروں سے موازنہ کرنا قطعاً درست نہیں، بند کمروں میں ہر طرح کی باز پرس ہوسکتی تھی مگر سفارتکاروں کو اس طرح سرِ بازار رسوا کرنا اور دشمن ملک کے افسران کو ان سے بہتر گرداننا قطعی درست نہیں اور اب ہم کس طرح دوسرے سفارتکاروں کا سامنا کریں گے۔

وزیراعظم کا غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے صرف سفارتکاروں کو مورد الزام ٹھہرانا قطعی مناسب نہیں کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے ملکی صورتحال جیسے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں اور کوئی غیر ملکی سرمایہ کار اُسی وقت کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچتا ہے جب اس ملک کے حالات سازگار اور ملکی معیشت مستحکم ہو۔ گزشتہ ڈھائی سالوں میں 4 وزیر خزانہ آچکے ہیں اور موجودہ وزیر خزانہ خود اس بات کا اعتراف کرچکا ہے کہ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے تو ایسے میں کیونکر کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرے گا اور وہ ملک جہاں مذہب کے نام پر پیش آنے والے حالیہ واقعات اور انتہا پسندی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی زندگیاں اور سرمایہ کاری محفوظ نہیں، وہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کیسے راغب کیا جاسکتا ہے؟

یہ حقیقت ہے کہ سفارتی امور اور بیرون ملک اہل وطن کے مفادات مشترکہ ہیں، دنیا میں جہاں کہیں سفیر موجود ہیں، ان کا اپنے اہل وطن سے رشتہ جسم اور روح کی طرح ہے۔ بیرون ملک تعینات پاکستانی سفیر اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی محنت کے بل بوتے پر ملک سے باہر پاکستان کا پرچم بلند کرتے ہیں اور ان کی ترسیلات کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہونے سے محفوظ ہے۔اس طرح وہ بھی پاکستان کے سفیر اور وطن کے ہیرو ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے سفارتخانوں سے قونصلر سروسز کے حوالے سے شکایات میں حق بجانب ہیں مگر دفتر خارجہ کے افسران کی شکایات بھی جائز ہیں کیونکہ بیرون ملک بیٹھا سفیر پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے ملک میں مختلف وزارتوں کے تعاون کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے سفارتخانوں کو اپنی پرفارمنس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن ان معاملات سے بہتر انداز سے بھی نمٹا جاسکتا ہے اور یہ خطاب براہ راست نشر کرنے کی بجائے ان ہائوس سیشن میں بھی کیا جاسکتا تھا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سفارتکار ملکی دفاع میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔سفارتکاروں کی اس طرح تذلیل کرنے سے دفتر خارجہ کے عملے کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے جس سے ان کی صلاحیت بھی متاثر ہوگی۔ حکومت کا کام اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہے نہ کہ کمزور کرنا۔ وزیراعظم ایسا کرکے شاید بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ہیرو تو ضرور بن گئے جس کا انہیں سیاسی فائدہ بھی ہوگالیکن تمام سفیروں کی تضحیک اور ایک ادارے کو مورد الزام ٹھہرانے سے سفیروں کے ساتھ ساتھ ملک کی ساکھ بھی متاثر ہوئی جس کا نقصان پاکستان کو ہوگا۔

تازہ ترین