• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بس بہت ہو گیا ] ایک حد ہوتی ہے ۔ بیرونی خفیہ ایجنسیاں اور ان کے مقامی زر خرید ایجنٹس ہیں یا وحشت میں ڈوبے ہمارے اپنے دہشت گرد منظم گروہ ۔ کوئی نام نہاد لبریشن آرمی ہے یا کوئی مقامی اجارہ دار روایتی طاقت ، جو زمانے کے تغیر سے جنگ پر تو آمادہ ہے لیکن ناگزیر تبدیلی کو قبول کر نے کے لیے آ مادہ نہیں جو بھی ہیں جتنے بھی ہیں ، سامنے آئیں جس کسی کی جتنی بھی شکایات ہیں بلاجواز یاباجواز سامنے آئیں ۔ نہیں آتے نہیں بتاتے نہیں کھلتے تو اب اس امر کی تو ہر گز کوئی گنجائش ہی نہیں کہ پاکستان کے کسی صوبے ، شہر یا بازار ، چلتی بس ، سکولوں ، ہسپتالوں پر حملہ آور ہوں اورہمارے تاریخی ورثے کو راکٹوں اور بموں سے ملبہ بنا دیں ۔
بلوچستان میں یہ سب کچھ اس پس منظر میں ہوا کہ وہاں پہلی مرتبہ ایک متوسط درجے کی قیادت میں منتخب حکومت وجود میں آ چکی ہے ۔ اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف جملہ مقد مات کا ایک پنڈورا بکس کھل چکا ہے ۔ اب تو اکبر بگٹی قتل کیس میں بلوچستان پو لیس کے ہاتھوں ان کی گرفتار ی بھی عمل میں آ چکی ہے ۔ اس کے بعد کوئٹہ میں یونیورسٹی طالبات کی بس پر قاتلانہ حملہ ایک ایک پاکستانی کے لیے گہرے صدمے کا سبب بنا ۔زیار ت میں قائد اعظم آخری قیام گاہ کو نذر آتش کر نے سے ہر پاکستانی کے دل میں گہرا زخم لگا ہے ۔ ان واقعات سے جس پاکستانی کی دلخراشی نہیں ہو ئی وہ پاکستانی نہیں اگر وہ ہم میں ہے تو یہاں بس نہیں رہا ،کالی بھیڑ کی طرح پھنسا ہو ا ہے ۔ غضب خداکا مکمل سوچے سمجھے منصوبے سے فرمان نبوی ﷺ (حصول علم ) پر عمل پیرا معصوم طالبات پر اتنا شرم ناک ، ہلاکت خیز اور بزدلانہ حملہ ، پھر زخمیوں اور دوسرے داخل مریضوں کے علاج میں مصروف ڈاکٹروں اور نرسوں پر پیشہ ورانہ فرائض کے دوران حملہ، فریضہ بھی ہنگامی طبی امداد پہنچانے کا ۔ قائد اعظم کی زیارت میں آخری اقامت گاہ میں خاکسار کو دو مرتبہ جانے کا موقع ملا ایک مرتبہ طالب علم کی حیثیت سے ،دوسری مرتبہ طلبہ کے ساتھ مطالعاتی دورے کے موقع پر ۔ ہزاروں سال پرانے صنوبر کے جنگلات میں گھری قائد اعظم کی یہ ریذیڈنسی ہر پاکستانی کو پارٹیشن آف انڈیا اور قیام پاکستان کی سنہری تاریخ یوں یاد دلاتی کہ وہ اپنے اور آنے والی نسلوں کے اصل اور مستقل قائد کی عقیدت و محبت سے سر شار ہوجاتا ۔ زیارت کی ریذیڈنسی اور اس میں قائد کے زیر استعمال لباس ، فرنیچر ، برتن اور دوسری اشیاء کو مشاہدہ کر کے یہاں آنے والوں کے ذہن میں اس عظیم انسان کی بے مثال جدوجہد سے پر زندگی کی تصویر ایسے بنتی کہ اسے محسوس ہوتا کہ وہ خود تحریک پاکستان کی جدو جہد میں اپنے قائد کا ہم سفر ہے ۔ تاریخ کیسے بنتی ہے اور تہذیب سازی کا عمل کیسے پروان چڑھتا ہے ، اس میں اکابرین اور عوام کیا کردار ادا کرتے ہیں ، میوزیم اس کے ممکنہ مشاہدے اور عملی مطالعے کا ایساذریعہ ہے جس کا مقابلہ کوئی مشہور سے مشہور کتاب بھی نہیں کر سکتی۔ میوزیم میں قدیم اشیا ء اپنے اصل کے ساتھ اثر انگیز ہوتی ہیں ۔ زیارت ریذیڈنسی کی حیثیت برصغیر کے منتشر و مایوس مسلمانو ں کو مسلم قوم میں ڈھال کر ان کے لیے الگ وطن بنانے والے راست باز ، دیانت دار ،پر استقلال و پروقار قائد کی تاریخ ساز زندگی کے آخری مرحلے کا سب سے بڑا آئیکون تھا ۔ معصوم گارڈ کو قتل کر کے ریذیڈنسی کو نذر آتش کر نے کا منصوبہ بنانے والا دماغ شیطان کا دماغ ہے۔ اسی روز جس ابلیسی حرکت سے یونیورسٹی طالبات اور ہسپتال پر حملہ ہو ا اس نے زیارت کے شہریوں سمیت پورے پاکستان کو غم ناک بنا دیا اور ہر پاکستانی کے دل پر ایک گھاؤ لگا ۔
اب وقت صدمے سہنے او ر دل خراشی کا نہیں ۔ پاکستان کی سلامتی کا انتہائی تشویشناک اور مکمل سنجیدہ سوال کھڑا ہو گیا ہے ۔ بلوچستان کی صورت حال کو صوبائی تناظر میں دیکھنا اور اسی حوالے سے اس کا تجزیہ محدود ذہن کی علامت ہی نہیں ایک بڑی مجرمانہ غفلت ہو گی ۔ وفاقی اور باقی تینوں صوبائی حکومتوں کی بھی فوج و ایجنسیوں کی اور پاکستانی شہریوں کی بھی ، یہ محدود سوچ تباہ کن ہو گی ۔ ایک ہی راہ ہے کہ ہم جاری جمہوری و سیاسی ماحول اور قومی اتحاد ( برائے ملکی سلامتی ) کی جمہوری طاقت سے دشمن یا دشمنوں پر حملہ آور ہوں ۔ اپنے دفاع اور دشمن کی آخری شکست کے لیے یہ جنگ پاکستانی مسلمانوں ، عیسائیوں ، ہندوؤں ، سکھوں اور پارسیوں ، سنی و شیعہ ، پنجابی و سندھی ، بلوچی و پختون ، کشمیریوں اور گلگتی و بلتستانیوں اور پھر سب سے بڑھ کر فوجیوں اور شہریوں نے مل کر لڑنی ہے جو جنگ پاکستان پر مسلط کر دی گئی ہے وہ ا س کے خلاف جنگ میں یہی فوج لڑے گی تو فتح یقینی ہے اگر کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی اپنے کمال صبر ، آنسوؤں اور باوقار اتحا د سے ملک کو فرقہ وارانہ جہنم میں جھونکنے والے شیطان دماغ دشمن کو شکست دے سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی فوج ، پاکستان پرمکارانہ اور انتہائی مکروہ شکل میں حملہ آور دشمن کو نیست و نابود نہ کر دے ۔یہ ناگزیر کارعظیم محض تجاویز دینے سے ہو گا نہ فقط احتجاج اور تقریروں و تحریروں سے ۔ اس کے لیے فی الفور''قومی بلوچستان پالیسی ''کی تشکیل درکار ہے ۔ آغاز وزیر اعظم میاں نواز شریف کو کوئٹہ میں قومی بلوچستان کانفرنس کے انعقاد سے کرنا چاہیے ۔ مقصد فقط بلوچستان کی قومی پالیسی کی تشکیل ہو جس کی تھیم ''بلوچستان بچاؤ ، پاکستان بچاؤ '' ہو سکتی ہے ۔ ہمیں اب کوئی یہ سمجھانے کی کوشش نہ کرے کہ بلوچستان ٹھیک ہے یا ایسے ہی ٹھیک ہو جائے گا ۔ کنٹرول میں ہے ۔ چند شر پسند گروہ کچھ نہیں کر سکتے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جمہوری عمل بھی بلوچستان کو کنٹرول نہیں کر پا رہا ۔ وفاقی و صوبائی حکومت ، ایجنسیاں اور فوج ناکام ہیں ۔ کوئی کامیاب ہے تو وہ دشمن ہے ۔ حقائق کے اعتراف کے بغیر ہم صحیح پالیسی بنا سکتے ہیں نہ مطلوبہ فیصلہ سازی تک پہنچ پائیں گے ۔ سچ کی طاقت سے ہی قومی اتحاد اور مطلوبہ یک جہتی پیدا ہو گی ۔ پالیسی کیسے بنتی ہے ؟ اسلام آباد کی بلوچستان پالیسی کو ٹیکنو کریٹس کی فنی رہنمائی سے تشکیل دینا ہے ۔ اس کی اختیاریت سے فیصلہ سازی اور قانون سازی کیسے ہوگی ، اس کا اطلاق کیونکر ممکن ہو گا ؟ ان سب کے سائنٹفک اور علمی و نظری جوابات پر مبنی حل ہی اب مسئلہ بلوچستان کا حل رہ گیا ہے ۔ دشمن کو ملک سے باہر دور تک بھگانا ہو گا جو اندر گھس آئے ہیں ،کس ادارے کو ان کو بھی چن چن کر پکڑنا ہے اور ان سے انصاف کے مطابق سلوک بھی ،کس ادارے کو کس ادارے سے کیا شکایت ہے ۔کہاں عدم اعتماد اور شک ہے ؟ کھلے اظہار خیال سے غلط فہمیاں اور اپنے ہی فاصلے ختم کرکے ایک مربوط قومی طاقت سے بلوچستان پر حملے کو دشمن کی شکست اور پاکستان کی فتح میں تبدیل کر نے کا وقت آ گیا ۔ اسے اب نہ بلوچستان کو بیچاری کم سکت حکومت پر چھوڑا جاسکتا ہے نہ فقط فوج اور ایجنسیاں ہی اس کا حل ہیں، سب نے مل کر دفاع پاکستان کے جذبے سے نکلنا ہے ۔ آئین یا قانون اگر بلوچستان کی مدد کر نے میں دوسرے صوبوں کے لیے کسی رکاوٹ کا باعث ہیں تو خیر سے ، سب اسمبلیاں بن چکی ہیں ، آئین میں ترمیم کر نی پڑے تو کی جائے ۔ قانون سازی مطلوب ہے توا س میں کوئی کوتاہی نہ کی جائے ۔ قومی بلوچستان کونسل ، وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں ، بلوچستان پر قومی پالیسی کی تشکیل اور اطلاق کی ذمہ دار ہو ۔ دشمن واضح طور پر بیرونی ہے تو اس کی زبان میں جواب دیا جائے ۔ پاکستان کا نمک کھا کر اس سر زمین پر رہنے او ر بسنے والوں نے اگر اپنے ہی ملک کے خلاف باقاعدہ جنگ جاری رکھی ہو ئی ہے تو انہیں ، ہتھیار ڈال کر واپس قومی دھارے میں آنے کا آخری انتباہ کر دیا جائے ۔ نہیں مانتے تو ان سفاکوں کو پاکستان کے دشمن سمجھتے ہوئے کارروائی کر نی پڑے گی ۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی بطور قومی اپنے اتحاد کی طاقت کا جتنا اظہار کر سکتے ہیں کریں ۔آئی ایس پی آر اپنی روایتی خاموشی ختم کرے ۔ فوجی قیادت اپنی ضرورتوں ، مطلوبہ تعاون اور مجبوریوں سے پارلیمانی طاقتوں کو اعتماد میں لے ۔ کیا ہم سب ایک نہیں ؟ ایک اللہ کو ماننے والے ، اس کے احکامات کی پیروی میں زندگی بسر کر نے والے ہند کو تقسیم کرکے ایک الگ ملک بنانے والے، آئیں سب مل کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بچائیں ۔
تازہ ترین