• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
پہلے آتی تھی حالِ دِل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
وطن واپسی پر پہلے ہی روز کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات میں معصوم جانوں کے زیاں کی خبریں میڈیا پر دیکھ اور سن کر غالب کے مندرجہ بالا اشعار بے ساختہ میری زباں پہ آگئے۔ یہ غزل ہماری گیارہویں جماعت کے اُردو کے نصاب میں شامل تھی اور آج تک زبانی یاد ہے۔ دل غم زدہ ہے۔ ڈپٹی کمشنر کی شہادت، بے گناہ معصوم بچیوں کی شہادت، اسپتال میں نرسوں اور میڈیکل شعبے سے متعلق لوگوں کی شہادت، کس کس کا ذکر کریں۔ دل ہی ٹوٹ گیا ہے۔ قائداعظم کی رہائش گاہ واقع زیارت پر دہشت گردوں کی کارروائی ایک انتہائی قابل مذمّت واقعہ ہے۔ چوہدری نثار نے خود رہائش گاہ کا دورہ کرکے اچھا تاثر چھوڑا ہے۔ یہ ایک مثبت قدم ہے اور رہائش گاہ کی اس کی اصل حالت میں واپسی کا حکم بھی ایک خوش آئند بات ہے۔ قلم کاروں کے قلم ان دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے کرتے خشک ہورہے ہیں مگر دہشت گرد ہیں کہ ایک منظم طریقے سے متواتر تابڑ توڑ حملے چھپ چھپ کر رہے ہیں۔ حکومتی کوششیں اور انٹیلی جنس اداروں کی مستعدی فی الحال تو کوئی رنگ نہیں لائی۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں خدا انہیں کامیابی سے ہمکنار کرے۔ اس کام میں کامیابی کے لئے عوام کی دعاؤں کے ساتھ ان کی ذاتی کوششوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ مجھے قوی یقین ہے کہ ہمارے ذمہ دار ادارے ان حالات کا جائزہ بغور لے رہے ہوں گے اور دہشت گردوں کی حکمت عملی کا کوئی نہ کوئی توڑ نکال لیں گے۔ یہ کام تو مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ خدا مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ نواز شریف کو وزیراعظم بننے کے فوراً بعد جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بجلی کا بحران اپنی جگہ مگر دہشت گردی کو بھی وزیراعظم کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ فی الحال تو بجٹ کا سیزن ہے، تمام صوبائی اسمبلیاں اپنے اپنے بجٹ پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ قومی اسمبلی بجٹ پر تنقید اور بحث میں مصروف ہے۔ تمام سیاستدان ملک کی معیشت سنوارنے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں مگر دہشت گرد اپنی نئی نئی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی کررہے ہیں۔ اب آپ سوچیں کہ اسپتال اور لڑکیوں کی بس پرحملے کا کوئی تصوّر بھی نہیں کرسکتا مگر ہمارے ملک میں یہ بھی ہوگیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ کس کے ساتھ اور کیوں لڑ رہے ہیں جبکہ حکومت بار بار انہیں مذاکرات کی دعوت دے رہی ہے۔ ان کا ایجنڈا کیا ہے اور یہ کس کے اشارے پر کام کررہے ہیں۔ میرے خیال میں اب اس مسئلے کو وزارت خارجہ کے ذریعے سفارتی سطح پر اٹھا کر سوال کیا جائے کہ ان واقعات کے پیچھے کون ہے اور اگر ہماری اینٹلیجنس ایجنسیوں کو پتہ ہے کہ کون ہے تو پھر سفارتی سطح پر احتجاج کیا جائے اور اقوام متحدہ میں بھی بھانڈا پھوڑ دیا جائے۔ اب یوں گھٹ گھٹ کر کیا مرنا۔ کھل کر بات کرنی چاہئے اور دہشت گردوں کے پیچھے کارفرما ہاتھوں کو بے نقاب کرناچاہئے۔ ہمارا میڈیا جو کہ خدا کے فضل و کرم سے اب کافی آزاد ہے اسے بھی چاہئے کہ اپنے تفتیشی رپورٹر رکھیں جو کرائم کی بذات خود تفتیش کرکے عوام کو کرائم کے پیچھے پوشیدہ ہاتھوں سے آگاہ کریں تاکہ عوام اپنی آستین میں چھپے سانپوں کی نشاندہی کرکے ان کا سر کچل دیں۔ سیاست کے نام پر دہشت گردی کہاں کی شرافت ہے۔ اس کا سدباب ہونا چاہئے اور صاحبانِ اقتدار کو تمام مصروفیات ترک کرکے جنگی بنیادوں پر یہ کام نمٹانا چاہئے۔ آپ یقین کریں قائداعظم کی رہائش گاہ پر حملے کے وقت میں لندن میں تھا تو وہاں کے سولیسٹر شیخ محمد اسلم نے میرے اعزاز میں لندن کے مشہور ہوٹل میں بڑا پرتکلف عشائیہ دیا،جس میں برطانیہ میں رہنے والے کوئن کونسل بیرسٹر صبغت اللہ قادری، بیرسٹر رشید، بیرسٹر ذوالفقار، نعیم شیخ سولیسٹر، جیو کے لندن کے نمائندے افتخار صاحب، اور دیگر اخبارات کے نمائندوں کے علاوہ قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بہت سے دوستوں نے شرکت کی۔ دعوت کے دوران موضوع گفتگو قائداعظم کی زیارت کی رہائش گاہ پر دہشت گردوں کا حملہ اور اس کے مضمرات کے علاوہ پاکستان کی معاشی صورتحال اور نئے بجٹ پر تنقید اور تائید رہی۔ مجھے یہ محسوس کرکے ایک مرتبہ پھر خوشی ہوئی کہ ہمارے پاکستانی بھائی جو کہ اب معاشی طور پر برطانیہ میں بہت زیادہ مستحکم اور خوشحال ہیں، اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اور اپنی خوشحالی کے ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ ہر نشست میں پاکستان اور اس کی معیشت اور اس کے نظم و نسق کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ یہ ان کی وطن سے محبت ہے۔ وہ نہ صرف کما کر ہمارے لئے یہاں زرمبادلہ بھیجتے ہیں بلکہ وہاں رہ کر پاکستان سے آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع پر بھی بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں۔ میں نے لندن کے وینس ٹی وی پر دو لائیو پروگرام کئے تو کالوں کا تانتا بندھ گیا اور دو گھنٹے کا پروگرام چشم زدن میں ختم ہوگیا یعنی وقت محسوس ہی نہیں ہوا۔ اس موقع پر مجھے اپنے پاکستانی ساتھیوں کی یاد آئی جو ہمارے ساتھ ہماری طرح اپنے دیس میں رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے دیس کی قدر ہی نہیں اور ہمارے بھائی جو ملک سے باہر اس ملک کے لئے کما رہے ہیں وہ اس ملک کی مٹی کو ترستے ہیں۔ میں پاکستان آرہا تھا تو وہاں مقیم ایک ریٹائرڈ میجر سعید صاحب جن سے حالیہ دورے میں ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب جب آپ پاکستان پہنچیں تو وہاں کی مٹی کو میری طرف سے سیلوٹ مارنا۔ میں نے جہاز سے اترتے ہی اپنی سرزمین کو اپنی طرف سے اور میجر سعید کی طرف سے سیلوٹ کیا یہ ہیں وطن کے لئے بیرون ملک رہنے والوں کے جذبات۔ ایک شخص نے بڑی حسرت سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب آپ بڑے خوش قسمت ہیں وطن جارہے ہیں ۔ اس کی بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کاش ہمارے وطن میں رہنے والے لوگ بھی اس وطن کی اسی طرح قدر کریں جیسے پردیس میں رہنے والے اپنے وطن سے پیار کرتے ہیں۔ آیئے دہشت گردی کے خلاف مل کر جدوجہد کریں اور اپنے وطن کو امن کا گہوارہ بنائیں، اپنی مقدس مٹی کی حفاظت کریں اور اس دیس کو خوشحال کریں۔ ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ خدا نے ہمیں پیارا ملک دیا ہے جس میں معدنیات سے لے کر زراعت تک ہر چیز دستیاب ہے۔ گیس اور تیل بھی نکل رہا ہے۔ کوئلے کے ذخائر ہیں لوگ محنتی اور ایماندار ہیں۔ کاش سیاست دان بھی عوام سے کچھ سیکھیں اور عوام کی امنگوں کو پروان چڑھائیں، آخر میں حسب حال غالب کا شعر
آخری وقت بھی پورا نہ کیا وعدہٴ وصل
آپ آتے ہی رہے مر گئے مرنے والے
تازہ ترین