• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین اور پاکستان کی دوستی بہت گہری ہے اور دونوں ممالک اِس گہری دوستی کے سبب اُن تمام معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں کہ جن معاملات سے ایک دوسرے کے گہرے مفادات وابستہ ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین انتہائی اہم ہے تو چین بھی بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کے لئے ایک آزمودہ دوست ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین میں معاملات پر نظر رکھنے والے ہانگ کانگ کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو بھی یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ کشمیر پر بھی اسی نوعیت کی سفارتکاری اختیار کی جائے کہ جس طرح اختلافات کے باوجود چین نے تعلقات کو نارمل کر لیا اور طویل عرصے تک انتظار کیا، اُسی مانند پاکستان بھی تعلقات کو نارمل کر لے اور کشمیر پر طویل انتظار کی سفارت کاری پر تکیہ کر لے۔ جب حال ہی میں یہ گفتگو سنی تو مجھے آج سے چند سال قبل چین میں منعقد کی گئی ایک کانفرنس یاد آگئی۔ راقم الحروف کے ساتھ وہاں پر ایک موجودہ دور کے وفاقی وزیر اور اُن کے ساتھ اُس وقت کے فیڈرل چیمبر کے صدر بھی پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے جبکہ چین کے نائب وزیر خارجہ صوبائی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور صوبائی گورنر بھی موجود تھے۔ جب کچھ چینی دوستوں نے یہ گفتگو کی کہ پاکستان کو ہانگ کانگ کی مثال سامنے رکھنی چاہئے تو میں نے گزارش کی کہ ہانگ کانگ اور کشمیر کا تنازعہ بالکل مختلف نوعیت کاہے، کشمیر کا تنازعہ ہانک کانگ سفارتکاری سے حل نہیں کیاجا سکتا ۔ کشمیر برطانوی ہند کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے، یہ تقسیم مذہب کی بنیاد پر کی گئی تھی جبکہ اسی مذہبی شناخت کی بنیاد پر ثقافتی اور معاشی فرقبھی موجود تھا۔ چین کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے وہاں نہ تو کوئی قانونی تقسیم ہوئی تھی اور نہ ہی مذہبی یا ثقافتی نوعیت کی کوئی تقسیم موجود تھی۔ واقعات کو ایک چشمے سے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔

کانفرنس کے اختتام پر چین کے نائب وزیر خارجہ خصوصی طور پر ملے، جن سے آج بھی محبت کا رشتہ قائم ہے، کہنے لگے کہ جس طرف آپ نے اشارہ کیا ہے یقینی طور پر معاملات کو اُس زاویے سے ہی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اس گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے دوبارہ پاکستان میں مختلف حلقے بھارت سے بیک چینل سفارت کاری کا بتا رہے ہیں۔ یہ تو سرے سے ممکن ہی نہیں کہ اس اہم ترین موضوع پر آنکھیں موند لی جائیں۔ راقم الحروف جولائی 2019سے مسلسل تحریر کر رہا ہے کہ پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے اور خطے میں اس حوالے سے بڑی اہم تبدیلیاں رونما ہونے کی توقع ہے۔ اس کے بعد بھارت نے کشمیر میں وہ کر دیا جسے گزشتہ کوئی بھارتی حکومت نہ کر سکی تھی اور اس سے یہ واضح ہو گیا کہ میری اطلاع درست تھی۔ سفارتی دنیا میں بھارت کے معاشی جثہ کے باوجود اِس حوالے سے بہت گنجائش موجود ہے کہ ہم دنیا کو اپنی بات سمجھا سکتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ گنجائش سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت اور خواہش بھی تو موجود ہونی چاہئے اور اگر کیفیت بدستور یہی رہی تو ایسی صورت میں نہ صرف ہم کشمیر کے حوالے سے اپنی پوزیشن مزید کمزور کر لیں گے بلکہ دیگر معاملات میں بھی خسارے کا سودا کرتے چلے جائیں گے جیسا کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں حالیہ بات چیت، جس کے ادوار عراق میں منعقد ہو چکے ہیں۔ ایک ایسا معاملہ ہے کہ دونوں ملکوں سے اپنے دو طرفہ تعلقات اور مسلمان برادری کا ایک اہم حصہ ہونے کی حیثیت سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ دونوں ممالک جہاں پر گفتگو تک اس سبب سے آگئے ہیں کہ ان پر بدلتے بین الاقوامی حالات کا دباؤ ہے وہیں پر ان ممالک کے داخلی حالات بھی خلفشار کا شکار ہیں اور اس خلفشار سے نجات پانے کے لئے سعودی عرب اپنا معتدل چہرہ دکھانا چاہتا ہے ۔ جبکہ ایران کا داخلی خلفشار ایران کے آئندہ صدارتی انتخابات کی وجہ سے انتخابی بخار بھی رکھتا ہے کہ وہاں پر اعتدال پسند کامیاب ہوں گے یا سخت گیر دوبارہ ایوان صدر میں براجمان ہوں گے؟جواد ظریف کے آڈیو لیک واقعے سے کہ جس کے بعد ان کو صدارتی امیدوار کے طور پر بھی دستبردار ہونا پڑا۔ یہ واضح ہے کہ وہاں پر سخت گیر بھی بہت ساری سیاسی چالوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور یہ تو بالکل واضح ہے کہ ایران سعودی عرب گفتگو پر بھی کوئی بڑا بریک تھرو ایرانی انتخابات کے نتائج کے بعد ہی ہوگا اور یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ اس پر مثبت پیش رفت ہی دونوں کے مفاد میں ہے۔ اب وہ اس نوشتہ دیوار کو پڑھنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام، اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین