• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

R3؛ انکوائری کمیٹی کے رکن کو کوئی ہیر پھیر نہیں ملی

اسلام آباد (طارق بٹ) ایڈیشنل کمشنر کوآرڈینیشن (اے سی سی) راولپنڈی جہانگیر احمد ، جو مجوزہ راولپنڈی رنگ روڈ (آر 3) معاملے سے متعلق تین رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا حصہ تھے، کو اس منصوبے میں انتظامیہ کی سطح پر کوئی مالی ہیر پھیر نہیں ملی۔ انکوائری کمیٹی کے تینوں ارکان یعنی نئے مقرر راولپنڈی کمشنر گلزار شاہ، تبادلہ کردہ ڈپٹی کمشنر اور اے سی سی نے اپنی الگ الگ رپورٹ پیش کی ہے۔ اس فورم کی سربراہی کرنے والے گلزار شاہ نے اپنے تفتیشی نتائج میں اپنے پیش رو محمد محمود پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا ہے جسے محمد محمود نے مسترد کردیا ہے۔ اپنے بیان میں اے سی سی نے تمام 9 سواات کے جوابات دئیے جنہیں پنجاب حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سامنے رکھا تھا۔ جہانگیر احمد نے لکھا کہ عوامی عہدیداروں کی شمولیت کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ تاہم اسٹیٹ پلیئرز کی ایک بڑی تعداد کے ذریعہ دولت کا اثر اور کرائے کی تلاش اس حقیقت کی وجہ سے تھا کہ منصوبے کی منظوری کے بعد R3 الائمنٹ کا اعلان کیا گیا۔ اے سی سی نے بتایا کہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) بورڈ کے سیکریٹری نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ سی ڈی اے اور پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) کے مابین کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل نے 6 نومبر 2020 کو سی ڈی اے بورڈ کے اجلاس کے دوران وعدہ کیا تھا کہ ایک نئی سمری سی ڈی اے بورڈ کو پیش کی جائے گی۔ این ایچ اے ممبر نوید واہلا نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ایکسل اوور لوڈ نظام پر این ایچ اے اور آر ڈی اے کے ذریعہ کوئی معاہدہ / وعدہ نہیں ہوا۔ تاہم مذاکرات اور غیر دستخط شدہ معاہدے پر مشترکا طور پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔ جہانگیر احمد نے کہا کہ تمام انٹر چینجز پر مقامی رسائی صرف پسوال پر نہیں بلکہ پورے آر 3 پر فراہم کی گئی۔ اے سی سی نے لکھا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی جانب سے نوآبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) جاری کرنے اور موجودہ مارکیٹ ہائپ کے تناظر میں نووا سٹی نے اسسٹنٹ کمشنر فتح جنگ کے بیان کے مطابق قریب20 فائلوں کی رجسٹریشن فروخت کردی جو اس اراضی سے زیادہ ہے جس کیلئے حتیٰ کہ این او سی اور منظوری دے دی گئی۔ اے سی سی کا کہنا ہے کہ آر ڈی اے نے ایف ڈبلیو او تجویز پنجاب حکومت کے پی پی پی سیل کو پیش کی جس نے اسے پراجیکٹ ریویو کمیٹی (PRC) کے ساتھ شیئر کیا جس نے اس کے مطابق اس پر ساتویں اور آٹھویں اجلاس میں غور کیا۔ اس کے بعد اسے وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں تیسرے پی پی پی پالیسی اینڈ مانیٹرنگ (پی این ایم) بورڈ میں پیش کیا گیا۔ میٹنگ میں اس بات کی اجازت دی گئی کہ پنجاب پی پی پی اتھارٹی / پی پی پی سیل پی پی پی ایکٹ 2019 / پیپرا رولز کے مطابق بن مانگی تجویز پر کارروائی کرے گا۔ پی این ایم بورڈ کے چوتھے اجلاس میں ایف ڈبلیو او کی جانب سے پیش کی گئی بن مانگے منصوبے کی تجویز کو آر 3 کے لئے نان رسپانسو (non-responsive) قرار دیا گیا اور اس منصوبے کو مانگی گئی منصوبے کی تجویز کے ذریعے آگے لے جانے کا فیصلہ کیا۔ تو پروجیکٹ کو AIIB لون موڈ سے پی پی پیز میں منتقل کردیا گیا۔ اے سی سی کا کہنا ہے کہ الائمنٹ کا بڑھا ہوا دائرہ عمل سب سے پہلے زیروک انٹرنیشنل نے تجویز کیا تھااور بعد میں نیسپاک کے ذریعہ جائزہ لیا گیا۔ جہانگیر احمد نے کہا کہ اس کے بعد زیروک انٹرنیشنل نے اس کی فزیبلٹی کو بدلے ہوئے دائرہ عمل کے مطابق شروع کیا جو قابل اعتراض ہے۔ لیکن این ایچ اے رکن سے انکوائری کی گئی تو انہوں نے کہا کہ این ایچ اے نے ایم 2 پر سفر کرنے کی اجازت نہیں دی لہٰذا وہ N5 سے N5 تک جاسکتے ہیں۔ ابتدا میں زیروک انٹرنیشنل نے ایک الائمنٹ کی تجویز پیش کی تھی جو سی پیک روٹ کے اوپری حصے سے گزر رہی تھی۔ اسٹریٹجک پلاننگ ڈویژن (ایس پی ڈی) نے الائمنٹ کو مسترد کردیا اور اور کہا کہ ان کی حساس تنصیبات ہیں لہٰذا وہ اس الائمنٹ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ایس پی ڈی نے انہیں سی پیک روٹ کی دوسری جانب رہنے کی ہدایت کی۔ این ایچ اے کی تجویز کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ منصوبہ اٹک لوپ تک بڑھا دیا گیا اور اس کا رابطہ N5 کے ساتھ پسوال زگ زگ سے ہوتا ہوا سنگجانی اور مارگلہ شاہراہ کے ذریعہ بھی بنایا گیا۔ جہانگیر احمد کا کہنا ہے کہ لینڈ ایکویزیشن ایکٹ کے تحت اس کی وضاحت کی جاتی ہے کہ کلکٹر یا کسی دوسرے افسر کی تقرری بورڈ آف ریونیو (بی او آر) پنجاب یا کمشنر کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین