• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قارون بہرام جہاں ایک مالدار باپ کا بیٹا تھا وہاں وہ خود بھی بہت مالدار تھا۔ قارون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پیدائش چیچہ وطنی میں ہوئی تھی اور اس کے بچپن کا ایک حصہ چیچہ وطنی کی گلیوں میں ”چیچو چچ گنڈیریاں“ کھیلتے گزرا تھا تاہم اس کا والد جلد ہی ترک سکونت کر کے لاہور آن بسا اور اس نے گلبرگ میں بیس کنال کی ایک کوٹھی تعمیر کی جس کا نام اس نے ”کاٹیج“ رکھا۔ قارون کا باپ راتوں رات امیر بنا اور وہ اپنی اس خوش قسمتی کا راز کسی کو نہیں بتاتا تھا۔ لاہور میں سکونت اختیار کرنے کے بعد اس نے قارون بہرام کو ایک اعلیٰ سکول میں داخل کرایا جہاں ٹیوشن فیس ہزاروں روپے ماہوار تھی۔ یہاں اس کا شمار انتہائی دردمند طلبہ میں ہوتا۔ قارون کی مس نے ہوم ورک کے لیے ”غریب آدمی“ کے موضوع پر اپنی کلاس کو مضمون لکھنے کو کہا تو سب سے اچھا مضمون قارون بہرام کا قرار پایا جس نے لکھا تھا کہ … ”میرے ہمسائے میں ایک غریب آدمی رہتا ہے جس کی کوٹھی صرف 4 کنال کی ہے۔ اس کے پاس ایک سال پرانے ماڈل کی کار ہے اور اس کے گھر صرف تین کمرے ائیرکنڈیشنڈ ہیں“۔ راوی بیان کرتا ہے کہ مس نے یہ مضمون کلاس میں پڑھ کر سنایا تو قارون کے کلاس فیلوز آبدیدہ ہوگئے بلکہ یہ مضمون پڑھتے پڑھتے خود مس کی آواز بھی بھرا گئی۔
غریب عوام کے ساتھ قارون کا یہ رابطہ اور ہمدردیاں جوانی اور پھر بڑھاپے تک قائم رہیں۔ غریبوں کے ساتھ اس کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی اسے جوش آتا وہ پانچ پانچ دس دس لاکھ روپے کے بیئرز چیک کاٹ کر شہر کے مرکز میں واقع اپنے کسی 20 منزلہ پلازہ کے کسی فلور پر سے نیچے سڑک پر پھینک دیتا اور خود اوپر سے لوگوں کے ہجوم کو ان چیکوں پر جھپٹتے دیکھا کرتا۔ قارون بہرام کا حافظہ بچپن ہی سے خاصا کمزور تھا چنانچہ یہ چیک جن کے ہاتھ آتے بدقسمتی سے ان کے کام نہ آتے کیونکہ کمزور حافظے کی بناء پر وہ ان پر دستخط کرنا ہمیشہ بھول جاتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے اپنے کمزور حافظے پر قابو پا کر لاکھوں روپے کے بیئرز چیک اپنے دستخطوں کے ساتھ ہوا میں اچھال دیئے مگر کمزور حافظے کی بناء پر قارون نے جس بینک کے چیک کاٹے اس میں اس کا اکاؤنٹ ہی نہ تھا۔
میں نے قارون کے اس سوانحی خاکے کے آغاز میں اجمالاً یہ تذکرہ کیا تھا کہ قارون جہاں ایک مالدار باپ کا بیٹا تھا مگر یہ بیٹا اپنے باپ کی وجہ سے مالدار نہیں ہوا تھا بلکہ اپنی ذاتی محنت کی بناء پر اس نے یہ دولت کمائی تھی کیونکہ قارون اپنے نظریے پر سختی سے کار بند تھا کہ عملی زندگی میں غریب اور امیر کو ترقی کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں۔ کسی کو محض اس لیے زندگی کی دوڑ میں آگے نہیں نکل جانا چاہئے کہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا اور کسی کو محض اس لیے پیچھے نہیں رہ جانا چاہئے کہ اس نے فاقوں میں آنکھ کھولی تھی چنانچہ قارون نے یہ بات اپنے بیٹے کی عملی زندگی کے آغاز ہی میں اس پر واضح کردی۔ تاہم اس نے والد کے طور پر اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے چند کروڑ روپے کی رقم یہ کہہ کر اپنے بیٹے کے حوالے کی کہ وہ اس کا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر لے۔ قارون کے بیٹے نے اس معمولی سی رقم سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور کچھ عرصے میں اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر اس کا شمار بھی اپنے والد ہی کی طرح ملک کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ چنانچہ راوی کے مطابق قارون بہرام کو اس امر پر فخر تھا کہ اس کا بیٹا بھی ”سیلف میڈ“ ہے۔
قارون کی نظر میں قانون کا بہت احترام تھا لہذا اس نے اپنی دولت کبھی نہیں چھپائی، چنانچہ اس کی دولت کا سراغ لگانے کے لیے حکومتی عملے کے ارکان جب گاہے بگاہے اس کے پاس آتے تو وہ ان کے سامنے دولت کے ڈھیر لگا دیتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ان حلقوں میں بہت مقبول تھا اور بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، لیکن اپنی تمام تر دولت، تما م تر مقبولیت اور تمام تر عزت کے باوجود قارون بہرام کی طبیعت میں انکسار حد درجہ کو تھا۔ وہ خود کو حتی المقدور عام انسانوں کی سطح پر رکھتا چنانچہ انہی کی طرح مینو میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ناشتہ کرتا۔ دوپہر کا کھانا کھاتا اور ڈنر کرتا خود کو ان کی سطح پر رکھنے کے لیے رات سونے کی کوشش بھی کرتا۔ ہوا، روشنی اور دھوپ سے بھی فیض یاب ہوتا تاکہ عام انسانوں سے اس کا برابر کا رشتہ برقرار رہے۔ ایک عام آدمی کے ساتھ خود کو Identify کرنے کے لیے اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی قربانی دی یعنی ایک روز چپ چاپ مر گیا۔ حالانکہ بستر علالت پر ڈاکٹروں کا پورا بورڈ اور میز پر ہزاروں روپے کی دوائیاں موجود تھیں۔ قارون بہرام کی انسانی برادری کے نظریے کے ساتھ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے مرتے مرتے یہ وصیت کی کہ اس کی قبر سٹینڈرڈ سائز کی ہو، یعنی تعویذ کے نیچے اس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی عام قبروں کے مطابق ہو، چنانچہ اس کی وصیت کے احترام میں ایسا ہی کیا گیا۔
تازہ ترین