• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لندن کے نئے باشندوں کو شاید اندازہ نہ ہو کہ کبھی یہاں قریب قریب ہر گلی کے موڑ پر ایک دکان ہوا کرتی تھی۔وہ قطار درقطار محلے تو آج بھی ہیں لیکن ہر نُکّڑ پر جو دکان ہوا کرتی تھی وہ اب لا پتہ ہے۔ وہ باربردار کاروں کا زمانہ نہیں تھا۔ سُپر اسٹور وجود میں نہیں آئے تھے۔ ضرورت کی ہر چیز گلی کے آخری سرے پر مل جاتی تھی۔ گھر میں اچانک کوئی چیز ختم ہو جائے تو کوئی نہ کوئی بچہ دوڑ کر جاتا تھا اور ذرا دیر میں وہ چیز آجاتی تھی۔ یہ دکانیں کارنر شاپ کہلاتی تھیں۔ ہم اپنے موجودہ پتے پر کوئی چالیس سال سے آباد ہیں۔ اُس وقت حلال گوشت سے لے کر تازہ سبزی اور پھل تک ضرورت کی ہر شے چند قدم کے فاصلے پر دستیاب تھی۔ لوگ کاروں میں بیٹھ کر ڈپارٹمنٹل اسٹور نہیں جاتے تھے اور مہینے بھر کا سودا بوٹ میں بھر کر لانے کا رواج نہیں تھا۔ ہمارے محلے میں ہمارے ایک دوست صلاح الدین نے کارنر شاپ کھولی۔ انہوں نے ہر گاہک سے دوستی کرلی۔ ہر ایک کا نام یاد کرلیا۔ ان کا سودا ان کے گھروں پر پہنچانے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سارا محلہ ان کا مستقل گاہک بن گیا۔ صلاح الدین نے دیکھتے دیکھتے اپنا کاروبار اتنا بڑھا لیا کہ قریب کی کئی خالی دکانیں لے کر انہیں اپنا گودام بنا لیا اور خود کسی بڑی دکان میں منتقل ہونے کی سوچنے لگے۔ جب انہوں نے یہ بات مال فراہم کرنے والی کمپنی کو بتائی تو وہ لوگ ناراض ہوکر بولے کہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے ہو۔ جہاں بیٹھے ہو یہاں سے ذرا سا بھی نہ سرکنا۔ دکان کہیں اور کھولی تو زیادہ امکان یہ ہے کہ کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔ صلاح الدین نے اس صلاح کو مانا اور جب اتنی دولت جمع کرلی کہ اس سے امریکہ میں دو پٹرول پمپ خریدنے کے قابل ہو گئے جن کے ساتھ چھوٹا سا اسٹور بھی ہوتا ہے، وہ لندن میں اپنا کاروبار ختم کرکے امریکہ منتقل ہوگئے اور سنا ہے کہ وہاں اور زیادہ دولت کما رہے ہیں۔اسی طرح ہمارے علاقے کی بڑی سڑک پر بھی دکانیں تھیں جو لوکل شاپ کہلاتی ہیں۔ ان کے گاہک مقامی باشندوں کے علاوہ راہ گیر اور کاروں میں گزرنے والے لوگ ہو ا کرتے تھے۔ وہاں بھی ہمارے ایک اور دوست ظہیر خاں نے روزمرہ ضرورت کی اشیا کی دکان کھول لی جو گروسری اسٹور کہلاتی تھی اور جس میں آتش دان میں جلانے کے کوئلے سے لے کر دل اور جگر کو جلانے والی شراب تک ہر چیز دستیاب تھی۔ ظہیر خاں نے بھی بے پناہ محنت کی ، ان کی اہلیہ نے بھی ہاتھ بٹایا اور پھر تو خوش حالی نے ان کا گھر دیکھ لیا۔ چونکہ اس بڑی سڑک پر اس نوعیت کی یہ ایک ہی دکان تھی، ظہیر خاں نے خوب کمایا اور آس پاس کے مکان خریدنے لگے۔ لوگ بتاتے تھے کہ انہوں نے قریب قریب پوری گلی خرید لی ہے۔
حالات بڑے دغا باز ہوتے ہیں۔ پہلے سے بتا کر نہیں بدلتے۔ اچانک بدلتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کے بعض لوگوں کو بڑے دکھ دیتے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ حالات بدل گئے۔ ہماری گلی میں رہنے والے پرانے بڑے بوڑھے بتاتے تھے کہ ایک زمانہ تھا جب اس گلی میں کوئی کار نہیں ہوتی تھی۔ کبھی کوئی کار آتی تھی تو وہ کسی نہ کسی ڈاکٹر کی کار ہوا کرتی تھی یا پھر کسی میّت کوقبرستان لے جانے والی گاڑی آتی تھی۔ پھر وقت نے اپنے تیور بدلے اور ہر گلی اِس سرے سے اُس سرے تک کاروں سے بھر گئی۔ لوگ ایک ایک ہفتے کا سودا اکٹھا خریدنے کے لئے کاروں میں بیٹھ کر بڑے بڑے اسٹوروں یا مارکیٹوں کا رُخ کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نکّڑ والی کارنر شاپ کا کاروبار مندا ہونے لگا اور یہی نہیں ، وہ ایک ایک کرکے بند ہونے لگیں۔
پھر وقت نے ایک اور کروٹ بدلی۔ یہ جو بڑے بڑے اسٹور اور لمبی چوڑی دکانیں جو صرف شہر کی بڑی سڑکوں پر ہوا کرتی تھیں ، وہ چھوٹے علاقوں میں اپنی شاخیں کھولنے لگیں۔ مثلاً ٹیسکو ہمارے علاقے میں کھلی تو ٹیسکو لوکل کہلائی گئی۔ وہ اپنی کم قیمتوں کی وجہ سے پہلے ہی مشہور تھی، محلے میں اس کے آنے سے خرید و فروخت کا سارا مزاج بدلنے لگا۔ لوگ، خصوصاً خانہ دار خواتین اپنا سودا سلف لینے کے لئے اپنے ہی علاقے میں پیدل چل کر بڑے اسٹور کی مقامی شاخ پر چلی جاتیں اور تمام چیزیں نسبتاً کم قیمت پر لے آتیں۔ ظہیر خاں کے چلتے چلاتے کاروبار کو زور کا دھچکا لگا۔ مال سے بھری ہوئی ان کی دکان مستقل ہی بھری رہنے لگی۔ ان کی دکان کے عین مقابل ایک بہت بڑے اسٹور کی لوکل شاخ کھل گئی۔ ظہیر خاں کی شاخ دیکھتے دیکھتے مرجھانے لگی۔ میں جب کبھی ان کی دکان کے سامنے سے گزرتا ہوں تو مزاج ضرور پوچھ لیتا ہوں۔ برطانیہ میں کسی کی مزاج پرسی کی جائے تو عموماً دو قسم کے جواب ملتے ہیں۔ آپ پوچھیں کہ کیسا حال ہے ۔ جواب ملے گا ”بس، جی رہے ہیں“۔ آپ دریافت کریں کہ کیسے مزاج ہیں۔ جواب ہو گا: کچھ اتنے برے نہیں۔ظہیر خاں بھی کچھ ایسے ہی جواب دیا کرتے تھے۔ ابھی پچھلے دنوں میں ان کی دکان کے سامنے سے گزرا۔ باہر کھڑے دکان میں رکھی چیزوں کو درست کر رہے تھے۔ میں نے کہا۔”کیسے مزاج ہیں“۔ اس بار انہوں نے بالکل ہی مختلف اور سب سے جدا جواب دیا۔ کہنے لگے ”کروڑوں سے بہتر ہیں“۔
ان کا یہ فقرہ دیر تک میرے ذہن میں گونجتا رہا ۔ کچھ دیر بعد خبریں دیکھنے کیلئے ٹیلی وژن کھولا تو احساس ہوا کہ خاں صاحب نے یہ جواب کیوں دیا۔ خبر یہ تھی کہ برطانیہ میں ہزاروں بپھرے ہوئے نوجوان دولت مند اور سرمایہ دار ملکوں اور ان کی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چند ملک اس قدر مال دار اور کتنے بہت سے ملک اتنے غریب کیوں ہیں۔ دولت مند ملک اپنے حصے کی فراوانی میں سے ایک بڑا حصہ غریبوں کو دے کر ان کے دکھ دور کرسکتے ہیں ، وہ ایسا کیوں نہیں کرتے۔کہیں کہیں تو دولت کے انبار لگے ہیں اور لوگ ایسی ایسی چال بازیاں کر رہے ہیں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس دولت کا مالک کون ہے۔ کروڑ پتی کمپنیاں عیاری سے کام لے کر اپنا منافع صفر دکھاتی ہیں اور ٹیکس نہیں دیتیں۔ ادھر دوسری جانب یہ حال ہے کہ دنیا میں ہر سال بیس لاکھ بچے بھوک سے مررہے ہیں۔ انہیں پینے کا صاف پانی تک نصیب نہیں۔ بیماریاں ان پر حملے کر رہی ہیں اور معاشرہ ان کو جس سرگرمی سے دفن کرتا ہے ، اس انہماک سے ان کی جانیں بچانے کے جتن نہیں کرتا۔ بعض غریب ملکوں میں کتنے ہی بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ غضب یہ کہ جب کبھی قحط پڑتا ہے، فاقوں کی نوبت آتی ہے یا بیماریاں سر اٹھاتی ہیں، ان کی قربان گاہ پر سب سے زیادہ بھینٹ کمسن بچوں کی چڑھتی ہے۔ جن ملکوں میں غریبی ہے وہاں کبھی خشک سالی، کبھی سیلاب، کبھی زلزلہ اور کبھی وبائی امراض پے درپے چلے آتے ہیں اور موت کے سائے روز بروز گہرے ہوتے جاتے ہیں۔
ظہیر خاں نے سچ کہا۔ ہمار ا حال کروڑوں سے بہتر ہے۔
تازہ ترین