• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئی حکومتیں قائم ہونے کے فوراً بعد علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں نے پاکستان پر یک لخت یلغار شروع کر دی ہے اور یوں لگتا ہے کہ چراغ کی بجھنے سے پہلے لو بھڑک اُٹھی ہے۔ اِس بار حملوں میں بڑی شدت بھی ہے اور غیر معمولی جھنجھلاہٹ بھی ۔ علیحدگی پسندوں نے زیارت میں قائداعظم کی آخری رہائش گاہ کو نذرِ آتش کرنے سے پہلے گارڈ کو شہید کیا اور یہ پیغام دیا کہ وہ پاکستان کی تاریخ اور بابائے قوم کی زندگی کے نقوش ملیامیٹ کر دینا چاہتے اور جمہوری عمل کو مسترد کرتے ہیں۔ اِس گھناوٴنی کارروائی کی ذمے داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی اور پوری دنیا کو یہ شہادت فراہم کر دی ہے کہ اِس کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ قائداعظم کی ریذیڈینسی کو تخت و تاراج کرنے والے بنی نوع انسانی کے مجرم ہیں کہ اقوامِ متحدہ تاریخی آثار کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔ ہماری حکومت اور انسانی اور ثقافتی حقوق کی تنظیموں کو اقوامِ متحدہ کی اِس انتہائی افسوس ناک واقعے کی طرف توجہ دلانی چاہیے اور اِن حکومتوں کو خطوط ارسال کرنے چاہئیں جہاں بلوچستان لبریشن آرمی کے سرغنہ پناہ لیے ہوئے ہیں۔
کوئٹہ میں طالبات کو خون میں نہلا دینا اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں دہشت گردوں کا نرسوں  ڈاکٹروں  ایف سی کے جوانوں اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کو گولیوں سے چھلنی کر دینا سنگ دلی کی انتہا ہے۔ اِس دہشت گردی میں ایک خاتون بھی استعمال کی گئی جس نے جرم کو مزید گھناوٴنا بنا دیا ہے۔ اِن خوں آشام واقعات کے خلاف پورے پاکستان میں شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ خود بلوچستان میں سوسائٹی کے مختلف طبقات نے قائد اعظم کی ریذیڈینسی کو نذرِ آتش کر دینے کی انتہائی گھٹیا واردات پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے ساتھ اپنی غیر متزلزل وابستگی کا زندہ ثبوت دیا ہے ۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں وکلاء نے احتجاج کے طور پر عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور بلوچستان کے منتخب وزیر اعلیٰ جناب ڈاکٹر عبدالمالک کے ساتھ زبردست یک جہتی کا مظاہرہ کیا  مگر ہماری بدقسمتی کہ ہمارے وزیرِ داخلہ جناب چودھری نثار علی خاں نے اِن حادثات کی ذمے داری خفیہ ایجنسیوں اور سیکورٹی فورسز پر قومی اسمبلی کے بھرے ایوان میں ڈال دی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ بھی حکومت اور فوجی اور سول اداروں پر بے تکان برستے رہے اور الزام لگایا کہ پاکستان تواتر سے افغانستان اور بھارت کے اندر مداخلت کرتا آ رہا ہے اور ایجنسیوں نے اپنے لشکر پال رکھے ہیں جو شہریوں کو اغوا کرتے اور مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر یا ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ وہ الزامات ہیں جو بھارت اور افغانستان کی حکومتیں پاکستان پر لگاتی رہی ہیں۔ کچھ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جناب محمود خاں اچکزئی افغان صدر حامد کرزئی کی زبان بول رہے ہیں۔ہمارے دشمنوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج اور اِس کے تحت کام کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کے رشتے پاکستانی عوام کے ساتھ مستحکم نہ ہونے پائیں کیونکہ وہ پیشہ ورانہ مہارت کے اعتبار سے دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہوتے ہیں اور اُن میں جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی ناقابلِ تسخیر صلاحیت پائی جاتی ہے۔ فوج اور عوام کے مابین رشتے مضبوط ہونے کی صورت میں پاکستان علاقائی اور عالمی سطح پر ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔ الله تعالیٰ نے اِسے ایک ایسے محلِ وقوع سے نوازا ہے کہ وہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان سب سے مضبوط پُل ثابت ہو سکتا ہے اور اپنے عظیم ہمسائیوں چین  روس اور شرقِ اوسط کے ممالک سے تعلقات میں گہرائی پیدا کر کے بین الاقوامی رجحانات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ آئی ایس آئی جو دنیا کی بہت اچھی خفیہ ایجنسیوں کی فہرست میں شامل ہے  اُس نے افغانستان میں سویت یونین کو شکست سے دوچار کر دیا تھا جس کے نتیجے میں امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن بیٹھا تھا۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں آئی ایس آئی اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کی طاقت اور صلاحیت کی معترف ہیں اور جو طاقتیں اپنے مفاد کے لیے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں  وہ ہماری فوج اور ہماری خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈے کے وسوسے ایک مخالف ماحول پیدا کرتی رہتی ہیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں فوج اور ایجنسیوں کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے اور طالع آزما فوج کے سپہ سالار اور سول حکومتوں کا گلا گھونٹ کر برسرِاقتدار آتے رہے ہیں۔ اُن کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات سے ملک میں لاقانونیت اور فردِ واحد کی حکمرانی کو فروغ ملا۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں فوجی آپریشن فوجی حکومتوں کے زمانے میں بھی ہوئے اور سویلین دورِ حکومت میں بھی۔ جنرل پرویز مشرف کے طویل عہد میں اِس بدنصیب صوبے کے حالات بدتر ہوتے گئے۔ وہ پاکستان سے وفاداری کا دم بھرنے والے سرداروں کے خلاف بھی شدید نفرت کا اظہار کرتے اور نواب اکبر خاں بگتی کو اپنے انتقام کا نشانہ بناتے رہے۔ نواب صاحب معاملات طے کرنے پر آمادہ تھے اور مذاکرات کے لیے اسلام آباد آنا چاہتے تھے  مگر اُنہیں بار بار چرکے دیے گئے اور اُن کی شہادت پر جنرل پرویز مشرف نے یہ کارنامہ سرانجام دینے پر فوجیوں کو مبارک باد پیش کی۔ اِس پر بلوچ نوجوان بغاوت پر اُتر آئے کیونکہ وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکے تھے۔
پاکستان کے دشمنوں نے اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور اُنہیں مالی وسائل اور جدید اسلحے سے مسلح کر دینے اور بلوچستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر دینے میں پورا پورا تعاون کیا۔ یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ فرقہ وارانہ تشدد کو بھی بعض بیرونی طاقتیں ہوا دے رہی ہیں اورقتل و غارت کرنے والے عناصر کو سٹیلائیٹ کے ذریعے اطلاعات اور ٹارگٹ کی نشان دہی کر رہی ہیں۔جنرل پرویز کیانی جو ایک مختلف مزاج کے مالک اور مستقبل پر گہری نگاہ رکھتے ہیں  اُنہوں نے بلوچستان کے معاملات بہتر بنانے اور پس ماندہ صوبے کو دوسرے صوبوں کے برابر لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔ نئی چھاوٴنیوں کی تعمیر کا سلسلہ بند کر کے وہاں تعلیمی شہر بسا رہے ہیں اور اَن گنت منصوبوں کے ذریعے بلوچستانی نوجوانوں کو مین اسٹریم میں لانے کا اہتمام کیا ہے۔ اُنہوں نے ایف سی کے ایک ایسے سربراہ تعینات کیے جنہوں نے اِس فورس میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ وہ لیویز اور پولیس کی بھی فوجی بنیادوں پر تربیت کر رہی ہے جو اب علیحدگی پسندوں کی غیر انسانی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ جنرل کیانی نے اِس وقت آزادانہ اور شفاف انتخابات کے حق میں آواز اُٹھائی جب سیاسی مطلع پر شکوک و شبہات کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ وہ انتخابات کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے دوبار بلوچستان گئے اور فوج اور ایف سی کی شبانہ روز کوششوں سے وہاں انتخابات کا عمل مکمل ہوا اور بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار وہ سیاسی لیڈر وزیر اعلیٰ منتخب ہوا جو سردار ہے نہ کسی قبیلے کا نواب۔ ایک عظیم انقلاب رونما ہو چکا ہے۔زیارت اور طالبات پر دہشت گردی کی روک تھام کے سلسلے میں فوج اور اُس کی زیرِ کمان سیکورٹی فورسز کو ذمے دار ٹھہرانے اور اُن پر سرِعام گھناوٴنے الزامات کی بارش کر دینا  اِن تمام کوششوں پر پانی پھیر دینے کے مترداف ہے جو فوجی اور سول ادارے بلوچستان میں امن امان قائم کرنے میں دن رات مصروف ہیں اور بلوچستان کی معدنیات  تنصیبات اور انسانی وسائل کی حفاظت کر رہے ہیں۔ نئی قومی سلامتی کی پالیسی تشکیل دیتے وقت حقیقت پسندی  میانہ روی اور توازن کو بنیادی اہمیت دینی چاہیے۔ یہ امر قابلِ تحسین ہے کہ وزیر اعظم اِس ضمن میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں اور عسکری قیادت خوش دلی سے پورا پورا تعاون کر رہی ہے۔ مجھے جناب عمران خاں کا حلف اُٹھانے کا منظر بہت اچھا لگا اور اُن کی تقریر میں جو سیاسی تدبر پنہاں تھا  اُس نے بہت حوصلہ دیا۔
تازہ ترین