• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال میں دو مرتبہ شور اٹھتا ہے۔ کبھی عید مبارک، کبھی نیا سال مبارک۔ لیکن کیا غضب ہے، نہ عید ہی مبارک ہوتی ہے نہ نیاسال مبارک ثابت ہوتا ہے۔ بلکہ ہر بار قیامت اپنی صورتیں بدل بدل کر ٹوٹا کرتی ہے اور آنکھ کا یہ عالم ہے کہ خشک ہوئی جاتی ہے۔ایک رباعی کا پہلا مصرع یاد آتا ہے:

آنسو نایاب ہوگئے، ہائے غضب

اس بار تو عید کا چاند حیرت اور ماتم کا چاند بن کر ابھرا ہے کہ اوّل تو ایک آسمانی وبا کنبے کے کنبے نگل گئی ۔ اس نے نہ ہندو دیکھے نہ مسلمان، ایسے دانت بھینچ کرنازل ہوئی ہے کہ موت اور زیست کے سارے معیار اور تمام پیمانوں نے بھی ہار مان لی۔ اس کے علاوہ فلسطینیوں پر جو آفت ٹوٹی ہے اور یہودیوں نے جس وحشت اور بربریت کا مظا ہرہ کیا ہے اس کے بعد میر تقی میر کی یہ بات یاد آتی ہے:

کیا سیر اس خرابے کا بہت اب چل کے سور ہئے

کسی دیوار کے سائے میں لے کے منہ پہ دامن کو

سچ تو یہ ہے کہ دنیا کے حالات نے ہماری عید کو کہیں کا نہ چھوڑا۔میری نسل نے جو ستّر اسّی عیدیں دیکھی ہیں، یہ کہہ سکتی ہے کہ یہ بھی کوئی عید ؟ ایسی ہوتی ہے عید؟ایسا ہوتا ہے جشن ؟اور ایسی ہوتی ہے شادمانی؟۔ دنیا پر بھانت بھانت کے عذاب ٹوٹ رہے ہیں اور اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ آنے والے عہد اور آنے والے زمانے اپنے جو تیور دکھا رہے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے دل دہلتا ہے اور روح فنا ہوتی ہے۔ کیا ہوگا، کیسے ہوگا،لوگ کیسے جئیں گے ، کیسے عید کے عید بچوں کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر چاندی کا سکّہ رکھا کریں گے۔ گرانی کا بس نہیں چلتا کہ غریبوں کو کچّا چبا جائے، زندگی کی کوئی آسائش بھی ارزاں نہیں رہی، کوئی سرشاری کا سامان دستیاب نہیں،کہیں ایسے اسباب نہیں کہ انسان جی اٹھے اور عید مبارک کی دعا قبول ہونے کا نظارہ دیکھ سکے۔

عیدیں ہم نے بھی دیکھی ہیں، فضا کو معطر کرتی چاند راتیں اور گلے سے گلے ملنے کے وہ انسانی رشتے کے منظر کوئی لاکھ کہے کہ اب بھی ہیں مگر نہیں ہیں۔کورونا کی وبا پر بے سبب الزام ہے ،معانقے میں اب وہ پہلی جیسی صداقت نہیں رہی۔ وہ لوگوں کا صبح ہوتے ہی عید گاہ جانے کی تیاری کرنا، کئی روز پہلے سے تیار کورے لٹھے کا جوڑا نئے جوتے، کلائی پر لگایا جانے والا عطر، تازہ کٹے ہوئے بال اوپر سے ساتھ انگلی تھام کر چلتے ہوئے بچّے۔وہ منظر اب بھی ہیں، اب بھی خوشی کی لہر سی دوڑتی ہے مگر دل اور دماغ ہیں کہ مانتے نہیں اور اس دنیا کے بگڑتے ہوئے حالات کو ذہن سے محو کرنے پر کسی حال آمادہ نہیں۔

میں عید کی وہ صبحیں نہیں بھول سکتا جب میرے شہرکے آس پاس کے گاؤں دیہات کے لوگ عید گاہ جانے کے لئے بن سنور کر شہر آتے تھے۔ ان کے کڑکڑاتے لباس اپنی مخصوص آواز نکالتے تھے اور اکثر جوان لنگڑا رہے ہوتے تھے کیونکہ ان کے نئے نئے جوتے کاٹ رہے ہوتے تھے۔اس روز بازاروں میں کیسی کیسی سوغاتیں سجی ہوتی تھیں اورلڑکے ایک منٹ میں فوٹو اتروارہے اور خود اپنی تصویریں دیکھ کر کھلکھلا رہے ہوتے تھے۔اسی دوران وہ سحری میں جگانے والی ٹولی اپنی عیدی وصول کرنے آجاتی اور ایک چو ّنی لے کر خوشی خوشی چلی جاتی تھی۔پھر سب سے بڑا کمال یہ ہوتا کہ پاس پڑوس کے سارے ہندو،خاص طور پر مبارک باد دینے آتے اور دیر تک مبارک سلامت کی صدائیں بلند ہوتیں۔ ان صداؤں میں صداقت گھلی ہوتی، حرارت شامل ہوتی۔ لوگوں کے چہرے بشرے سے صاف محسوس ہوتا کہ انہیں حقیقی خوشی ہورہی ہے۔ اسی دوران بچوں کا شور بلند ہوتا ، ابّا عیدی کے لئے آواز دیتے اور وہ کمسن فوج ظفر موج دوڑ پڑتی۔

کیا ہوگیا وقت کو ،کس کی نظر کھا گئی زمانے کو۔ کہاںگئیں وہ رونقیں، کدھر گئیں وہ شادمانیاں۔ وہ جب پری چہرہ نسیم بانو گایا کرتی تھیں:مبار ک ہو ں عید کی ساعتیں۔مبارک ہوں برکتیں رحمتیں۔سب خواب سا ہوا جاتا ہے۔ سب ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوا جاتا ہے۔ عید کے تحفے اب بھی ملتے ہیں پر کاروبار کی طرح ،۔عیدی اب بھی ملتی ہے مگر نئے نکور نوٹوں میں لپٹی وہ خوشی نہیں ملتی جو ماند پڑے ہوئے سکّوں میں ملا کرتی تھی۔ اب تو ہماری شاعر عشرت آفریں کے بقول:

جنگ،جہالت،نفرت ، غربت پنی عید کا یہ تحفہ ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین