• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ دنوں سے حکومتی حلقوں کی طرف سے ’’انتخابی اصلاحات ‘‘ کا راگ اتنی زور سے الاپا جا رہا ہے کہ لگتا ہے یا تو عوام کو درپیش ہوشربا مہنگائی ، بیروزگاری اور معاشی زبوں حالی جیسے مسائل حل ہو گئے ہیں یا انتخابات جو 2023 میں ہونے تھے وہ اپنے وقت سے بہت پہلے ہونے والے ہیں۔ تیسری اور کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی ۔ اگر تو مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل حل ہو چکے ہوتے اور حکومت کی مقبولیت کا گراف اپنے عروج پر ہوتاتو پھر بھی اس حکومت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ اچانک انتخابی اصلاحات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتی، جو آج تک 2018 کے مبینہ دھاندلی والے مشکوک انتخابات کا دفاع کرتی آئی ہے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ تین برس کے دوران پاکستان کی تاریخ کی بدترین معاشی تباہی کے ردّ ِعمل کے طور پر عوام موجودہ حکومت سے اس قدر نالاں ہوچکے ہیں کہ انہوں نے نہ صرفتقریباً ہر ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدواروں کو شکست سے دوچار کیا ہے بلکہ پی ٹی آئی کے اندر بھی اس کی بیڈ گورننس اور عوام میں عدم مقبولیت کی وجہ سے بغاوت نظر آرہی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اشاروں کی منتظر ہیں کہ وہ کب اس ’’ گناہِ بے لذّت‘‘ کے اتحاد سے الگ ہوں جس کی وجہ سے ان کی اپنے حلقوں تک رسائی نا ممکن ہوتی جار ہی ہے۔ گویا پی ٹی آئی صرف عوام کے لئے ہی نہیں، اپنے ارکانِ اسمبلی اور اتحاد یوں کے لیے بھی ایک ایسابھاری پتھر بنتی جا رہی ہے جسے اٹھائے رکھنا کسی کے بس میں نہیں رہا۔ یہ صورتِ حال ہے جس میں اپوزیشن یا کسی بھی دوسری طاقت کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ یہ سب کچھ اس حکومت کا اپنا ’’ کارنامہ‘‘ ہے جس نے اپنی غلط حکمتِ عملی سے نہ صرف خود کو بلکہ پاکستان کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ منظر نامہ جس میں حکومت کی بدترین کارکردگی، ضمنی انتخابات میں پے در پے شکستوں ، پارٹی کے اندر بغاوت ، اتحادیوں کی لٹکتی ہوئی تلوار اور بجٹ کے نزدیک مہنگائی اور بیروزگاری میں تشویشناک اضافہ خودیہ بتا رہا ہے کہ حکومت کا مستقبل کیا ہے؟ بقول سہیل وڑائچ کہ یہ کمپنی مزید نہیں چل سکتی اور کسی وقت بھی بند ہو سکتی ہے۔عمران خان کے دستِ راست اسد عمر بھی علی الاعلان یہ کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کسی بھی وقت حکومت توڑ کر نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں عمران خان عوام کے سامنے اپنی کون سی کارکردگی لے کر جائیں گے؟ جب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی حکومت کا ایک فوجی ڈکٹیٹر نے خاتمہ کیا تو پیپلز پارٹی کے پاس آئین ِ پاکستان کی تشکیل ، ایٹمی پروگرام، اسلامی سربراہی کانفرنس، مزدوروں اور محنت کشوں کے لیے انقلابی اقدامات سے لیکر نئے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں تک کئی ایسے کارنامے تھےجنہوں نے ظالم ترین ڈکٹیٹر کے ہر جبر کے باوجود پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا اور گیارہ برس کے بعد جب ملک میں جماعتی انتخابات ہوئے تو ریاست کی تمام تر دھاندلیوں کے باوجود پیپلزپارٹی انتخابات جیت گئی ۔ بعد میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی دومرتبہ حکومت برخاست کی گئی لیکن ہر مرتبہ پیپلز پارٹی پہلے سے بھی زیادہ مقبول جماعت بن کر اُبھری۔ اسٹیبلشمنٹ نے جب یہی حرکت اپنے سابقہ پروردہ اور لاڈلے میاں نواز شریف کے خلاف کی تو وہ بھی عوام میں مقبول ہو گئے۔ لیکن عمران خان نہ تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں جو پاکستان میں ’’ عوامی مقبولیت‘‘ کی پہلی سیڑھی ہے اور نہ ہی ان کے کریڈٹ میں کوئی ایک بھی ایسا ’’ کارنامہ‘‘ ہے جس کی بنیاد پر وہ دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہو سکیں تو ظاہر ہے وہ نام نہاد ’’ انتخابی اصلاحات‘‘ کا ڈھونگ رچا کر مشینوں کے ذریعے پھر سے کامیاب ہونے کا ’’ کارنامہ ‘‘ سرانجام دینا چاہتے ہیں کیونکہ انتخابات میں کامیابی کے لیے پرانے حربے اب کامیاب نہیں ہو سکتے ۔

جہاں تک الیکٹرانک مشینوں کا سوال ہے جن کے بارے میں شدومد کے ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کو روکا جا سکتا ہے تو عمران حکومت کے علاوہ ساری دنیا جانتی ہے کہ مشین بذاتِ خود نہیں اسے چلانے والا کاریگر اہم ہوتا ہے کیونکہ مشین انسان نہیں بناتیں، انسان مشین بناتے ہیں۔ جن جمہوری ممالک نے انہیں بنایا تھا، ان کا مسئلہ دھاندلی کا نہیں بلکہ وقت کی بچت کا تھا۔ اس کے باوجود بہت سے ممالک میں یہ مشینیں ابھی تک متنازع ہیں۔ دوسرے انتخابات میں دھاندلی صرف ووٹنگ والے دن ہی نہیں ہوتی ۔ اس کا آغاز اداروں کی مداخلت سے ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سچ کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی عمل میں مداخلت کو روکے بغیر انتخابی دھاندلیوں کو نہیں روکا جا سکتا کیونکہ پیپلز پارٹی سب سے زیادہ ان دھاندلیوں کا شکار رہی ہے۔ جب جنرل ضیاء نے پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے ’’مثبت نتائج ‘‘ آنے تک انتخابات ہی نہ کروائے ۔ پنجاب میں میاں نواز شریف جبکہ دیہی سندھ میں قوم پرستوں اور شہری سندھ میں الطاف حسین کو پروموٹ کیا گیا، جنہیں اب غدّار قرار دیا جا رہا ہے۔ آئی جے آئی بنوائی گئی، کرپشن کے نام پر مہا آئینی کرپشن کی گئی۔ بھٹو شہید کو اذیتیں دے کر ’’عدالتی قتل‘‘ کیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سرِ عام شہید کردیا گیا۔ بے شمار سیاسی کارکنوں کو قید، کوڑے اور جرمانوں کی سزائیں دی گئیںمگر پیپلز پارٹی ختم نہیں ہوئی۔ جب تک پاکستان میں آئین کی بالادستی نہیں ہوگی، انتخابات میں تو کیا پاکستانی معاشرے میں بھی کسی دھاندلی کو روکا نہیں جا سکتا۔

تازہ ترین