• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن کل سے سیاسی جماعتوں سے اہم مشاورت کریگا

اسلام آباد (حنیف خالد) الیکشن آرڈیننس 2021ء کے اجراء کیلئے حکومت پاکستان اور صدر پاکستان نے پارلیمنٹ‘ الیکشن کمیشن‘ سیاسی جماعتوں سمیت دیگر متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی۔ الیکشن آرڈیننس 2021ء الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر عملدرآمد کیلئے بھجوایا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع نے جنگ کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن آرڈیننس کے متعلق تمام سٹیک ہولڈرز سے کل اور اسکے بعد مشاورتی اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیر 17مئی کو جو عید تعطیلات کے بعد پہلا دن ہو گا چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ہیڈکوارٹرز میں ہنگامی اجلاس بلایا ہے تاکہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ الیکشن آرڈیننس اور اسکے مضمرات پر مشاورت کی جا سکے۔ اس اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے قائدین یا اُنکے نمائندے‘ الیکشن مانیٹرنگ تنظیموں کے سربراہان بھی شریک ہونگے۔ سٹیک ہولڈرز سے ملاقاتوں کے دوران چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چاروں صوبوں کے ممبران‘ ڈائریکٹر جنرل آئی ٹی اور ڈائریکٹر جنرل قانون کو اپنی نشستوں میں شامل رکھیں گے۔ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان صدارتی الیکشن آرڈیننس 2021ء پر عملدرآمد ہو سکنے یا نہ ہو سکنے کے بارے میں اپنا فیصلہ دیں گے۔ کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان خودمختار آئینی ادارہ ہے جس طرح اسلامی نظریاتی کونسل خودمختار آئینی ادارہ ہے‘ یہ دونوں ادارے نہ تو حکومت کو نہ ہی سپریم کورٹ کے ماتحت ہیں۔ حکام کے مطابق الیکشن کمیشن کسی بھی ایسی ٹیکنالوجی کو انتخابات میں استعمال کرنے پر یقین رکھتا ہے جو محفوظ‘ بااعتماد اور بین الاقوامی معیار کی ہو۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع نے جنگ کو بتایا کہ آئین کے مطابق شفاف الیکشن منعقد کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے مگر ٹیکنالوجی کا سسٹم مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اور ایسا ٹیکنالوجی کا سسٹم جو محفوظ ہو سٹیک ہولڈرز کے اعتماد پر پورا اترتا ہو اور عالمی معیار کے مطابق ہو الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق ابھی تک حکومت ایسا ٹیکنالوجی کا سسٹم دینے میں ناکام رہی ہے جو نہ تو عالمی معیار کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین بنا سکی اور نہ ہی سمندر پار پاکستانیوں کیلئے کوئی سافٹ ویئر حکومت بنا سکی۔ یہ کام وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع نے کہا ہے کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ٹیکنالوجی مہیا کرنے میں حکومت کامیاب نہیں ہو سکی اور صدارتی حکم نامہ پہلے ارسال کر دیا جو کہ مقامی اور بین الاقوامی الیکشن کے ماہرین کیلئے حیران کن بات ہے۔ پلڈاٹ کے صدر احمد محبوب بلال کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ عمل بین الاقوامی ضابطہ کے خلاف ہے کیونکہ پوری پارلیمان‘ سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کو یہ صدارتی حکم نامہ جاری کرنے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی مثال ہے جو انتخابی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اُن کا کہنا ہے کہ شاید حکومت کا صدارتی فرمان اسلئے عجلت میں آیا ہے کیونکہ حکومت نے کئی سال ضائع کر دیئے ہیں جس میں الیکشن کمیشن اپنی تمام رپورٹیں بھیجتا رہا‘ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 94اور 103کے تحت الیکشن کمیشن نے یہ رپورٹیں بھجوائیں مگر الیکشن ایکٹ کے سیکشن 94اور 103کے تحت ان تین سالوں میں حکومت کوئی کام نہیں کر سکی۔ اس عمل اور صدارتی فرمان کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے تو تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لیکر چلنا ہوتا ہے، نہ صرف کہ حکمران جماعت کو ساتھ رکھتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام کے مطابق انٹرنیٹ ووٹنگ ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر منشاء ستی جو سائبر سکیورٹی کے ماہر ہیں کا کہنا ہے کہ نادرا کا بنا ہوا انٹرنیٹ ووٹنگ کا نظام ناقابل استعمال ہے کیونکہ یہ سسٹم دوران ٹیسٹنگ ہی ہیک ہو گیا تھا‘ جس کی رپورٹ اُس وقت بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ کچھ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ یہ صدارتی حکم نامہ بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج ہو جائیگا کیونکہ دنیا میں الیکٹورل ریفارمز (ELECTORAL REFORMS) کبھی بھی صدارتی حکم نامے سے نہیں آتیں بلکہ پارلیمنٹ کے مشورے سے لائی جاتی ہیں۔ صدارتی حکم نامہ جو الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا ہے اُس نے قانونی اور تکنیکی مسائل بھی جنم لئے ہیں‘ اس جلد بازی اور بچگانہ عمل میں کوئی حکمت موجود نہیں ہے۔ جہاں سسٹم ہی موجود نہ ہو اور حکومت نے تین سال ضائع کرنے کے بعد بھی کوئی الیکشن ٹیکنالوجی فراہم نہ کی ہو وہاں بین الاقوامی معیار کا ایسا انتخابی نظام کیسے آ سکتاہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں‘ پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کو بھی مکمل نظرانداز کیا گیا ہو۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہمیشہ سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ جو بھی کام کیا جائے اس میں پارلیمنٹ کی رائے بہت ضروری ہوتی ہے اور یہی بین الاقوامی معیار کا تقاضا بھی ہے۔

تازہ ترین