• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل دخار…سیمسن جاوید
یورپی یونین کی قرارداد پاکستان کی حکومت اور خصوصاً پاکستانی عوام کے لئے لمحہ فکریہ ہے، پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے کٹ کریا الگ ہو کر معاشی مسائل سے نکل نہیں سکتا۔خصوصاً ان ممالک سے جو پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اگر ہم یہ چاہتے کہ دوسرے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کریں ،سیاحت کو فروغ ملے توملک کو بنیاد پرستی اورایسی آلائشوں سے پاک کریں جو ملک کے لئے بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔ مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ پیار اور محبت کا درس دیتا ہے۔انسان کے قتل یا دوسرے مذاہب یا اس کے پیغمبروں کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ آزادیِ رائے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کسی کے مسلک یا عقیدے کی توہین کی جائے۔ حکومت کو ایسے عناصر کے خلاف ایکشن لینے کی اشد ضرورت ہے۔جو بین المذاہب میں انتشارکا سبب بنتے ہیں۔ پْر امن اور بہتر سفارتی تعلقات استوار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یورپی یونین نے پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کی 662 افرادنے اس کے حق میں اور تین نے مخالفت میں ووٹ ڈالے ۔اس قرار داد میں یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 2014 ء میں پاکستان کو جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر فی الفور نظرثانی کرے۔ یورپی یونین کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو 2014 میں جی ایس پی پلس کا درجہ دئیے جانے کے بعد پاکستان اور یورپی یونین کے ملکوں میں تجارت میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے اقتصادی سروے سال 2019-20کے مطابق یورپی یونین پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔اس سروے میں کہا گیا ہے کہ جی ایس پی پلس کے تحت پاکستانی مصنوعات کو یورپی یونین کے 27ملکوں میں بغیر کسی ڈیوٹی کے رسائی حاصل ہے۔ یورپی یونین کو بیچے جانے والے مال میں سب سے زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی ہے۔ پاکستان سے یورپی یونین برآمد کیے جانے والی اشیا میں 76 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا بنتا ہے۔ جی ایس پی سکیم کے تحت ترقی پذیر ممالک کی یورپی یونین کی منڈیوں میں آنے والی مصنوعات سے درآمدی ڈیوٹی ہٹا دی جاتی ہے۔ اگر کسی ملک کو یہ درجہ دیا گیا ہے تو اسے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور طرزِ حکمرانی میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں کا نفاذ کرنا ہوتا ہے۔ایک طرف یورپی یونین کی یہ قرار دار ہے تو دوسری طر ف اوورسیز میں رہنے والے مسیحی پاکستانی ہیں جن کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔یورپی یونین میں یہ قرار داد کیوں آئی ،عام عوام اور مذہب کے متوالے ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ قانون کو ہاتھ میں لینے سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ ان کے ا فعال سے ملک پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ لاء اینڈ آرڈر پر عمل درآمد کروانے والی ایجنسیوں اور حکومت کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اس کشیدگی کے موقع پر ایسے وہ تمام بیانات جو جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ گریز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
تازہ ترین