• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بولٹن کی ڈائری۔۔۔ابرارحسین
لیبر پارٹی بولٹن کے ایک سپورٹر کی جانب سے بولٹن سے جنگ جیو کے رپورٹر یعنی راقم الحروف پر حملہ اس وقت کیا گیا جب گرٹ لیور داوڈ سے لیبر کونسلر راجہ محمد اقبال ایک مقامی اسکول کی فیلڈ پر اپنی فتح کا جشن منا رہے تھے، اس کی کوریج کیلئے ایک اور کونسلر راجہ خرم رئوف نے مجھے وہاں آنے کی دعوت دی یہ جگہ اس کونسلر کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر یا یوں کہہ لیں کہ ان کی دہلیز پر واقع ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو لیبر پارٹی کے ایک سپورٹر نے یہ کہہ کر بدتمیزی شروع کی کہ تم ٹوری پارٹی کو زیادہ سپورٹ کرتے ہو جبکہ لیبر کی کم کرتے ہو۔ میں نے کہا کہ کوئی بھی ویڈیو کلپ چیک کرلیں تو معلوم ہوجائے گا کہ سب کی مساوی کوریج ہے مگر وہ مشتعل ہوگیا اور فوراً سیدھا میرا گلہ انتہائی زور کے ساتھ دبایا اگر بیچ بچائو نہ ہوتا تو میرا کام تمام ہوچکا ہوتا۔ اس وقت لیبر پارٹی کے دو کونسلرز بھی موجود تھے، اس نے مجھ پر بار بار اٹیک کرنے کی کوشش کی، ایک بار تو اس نے پورے زور کے ساتھ مجھے دھکا دیا، خوش قسمتی ہے کہ میرا توازن نہیں بگڑا اور میں زمین پر نہیں گرا۔قارئین کرام ہماری سیاسی جماعتیں آزادی صحافت کے نعرے بلند کرتی ہیں اور ہم اہل صحافت کورونا جیسی موزی وائرس کی بھی پرواہ نہ کرکے اپنی جان کو شدید خطرات میں ڈال کر ان سیاسی لوگوں کی کوریج کرتے ہیں، خود راقم کی صحافتی سرگرمیوں کا دائرہ کار 3دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے مگر برطانیہ میں بھی صحافیوں کیلئے بعض مختلف قسم کی مشکلات ضرور ہیں، مسائل بھی ہیں مگر جو میرے ساتھ واقعہ پیش آیا ہے، اس کا تصور بھی اس آزاد معاشرے میں نہیں کیا جاسکتا۔ مجھ سے انٹرویو کیلئے بی بی سی کے ایک رپورٹر نے رابطہ کیا تو جب میں نے اسے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل بتائی تو اس کا پہلا ردعمل یہی تھا کہ یہ برطانیہ ہے، کوئی تھرڈورلڈ کا ملک نہیں ہے۔ قارئین محترم مجھے اس پر اسپتال بھی جانا پڑ گیا اور پولیس کو باقاعدہ طور پر رپورٹ بھی درج کرا دی ہے تاکہ وہ مجھے تحفظ فراہم کرے تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے جو لوگ برطانیہ میں بھی آزاد کشمیر اور پاکستان کی طرح کا تشدد پر مبنی ماحول تخلیق کر رہے ہیں، کیا اس رجحان کی کوئی جسٹی فکیشن دی جاسکتی ہے، پہلی تو بات یہ ہے کہ میں نے روزنامہ جنگ لندن میں بھی بولٹن کونسل کے انتخابات کی سرگرمیوں کو رپورٹ کیا اور غیر جانبدار صحافت کے مروجہ اصولوں کے مطابق صورتحال کی عکاسی کی مگر بالغرض اگر کوئی صحافی کسی ایک جماعت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور اپنے تجزیہ میں اس کا اظہار کرتا ہے تو کیا یہ ہمار فرض منصبی نہیں کہ ہم لوگوں کو باخبر رکھیں کہ کس وارڈ یا حلقہ انتخاب میںکس کونسلر یا ایم پی کی کارکردگی کیا رہی ہے۔ لوگوں کے مسائل کس نوعیت کے ہیں اور ان مسائل پر منتخب نمائندوں کا کیا کردار رہا ہے اور کیا اہل صحافت کی یہ ذمہ داری نہیں کہ ہم لوگوں کو پیغام دیں کہ ووٹ قومی امانت ہے اس کو صرف اہل شخص کو دیں اور آپ بولٹن کی ڈائریاں چیک کریں، کیا میں نے یہی پیغام نہیں دیا بلکہ یہ تک لکھا کہ ووٹ کو ہر طرح کے تعصب سے ہٹ کر دیا جائے اور مقامی مسائل کو اجاگر کیا جائے اور اس پر بھرپور توجہ دی جائے۔ شاید میری یہ معروضات بعض حلقوں کو ناگوار گزری ہیں۔ عوام یہ جاننے کی کوشش کر ر ہے ہیں کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا، اس کے اصل محرکات کیا تھے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
تازہ ترین