• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب جب کہ طالبان کو دوحہ، قطر ، میں دفتر کھولنے کی اجازت مل گئی ہے اور امریکی اس پیش رفت کا خیر مقدم کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وزیر ستان میں انتہاپسندوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن کا باب بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ فوج ویسے بھی وہاں کوئی آپریشن شروع نہیں کرنے والی تھی، ایسے کسی خدشے کو دل میں جگہ نہ دیجیے، لیکن جو تھوڑا بہت امکان تھاکہ شاید مستقبل میں بننے والی کسی ناگہانی صورت ِ حال کی وجہ سے فیصلہ کن آپریشن کیا جائے گا، وہ بھی ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے۔
اب صورت ِ حال تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ جب امریکہ طالبان کے دوحہ میں کھولے گئے دفتر کے ساتھ گفت و شنید، چاہے یہ کتنی ہی بے مقصد کیوں نہ رہے، میں مصروف ہورہا ہے تو پھر پاک فوج کے پاس بھی نفسیاتی طور پر شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ فوج اس علاقے میں جیسے موجود ہے اور جیسے نیم دلی سے کارروائیاں کرتے ہوئے اپنے جوان اور افسران کا جانی نقصان برداشت کررہی ہے(گزشتہ بدھ کو ہونے والی جھڑپ میں ہمارے چھ فوجی شہید ہوگئے تھے) اور چاہے ہم جیسے مرضی غم وغصے کا اظہار کرتے رہیں، یہی سلسلہ چلتا رہے گا۔ اس جنگ میں وقت کا پانسہ طالبان کے حق میں تھاکیونکہ اس طرز کی گوریلا جنگ کرنے والوں کے پا س موقع محل کا انتخاب موجود ہوتا ہے جبکہ باقاعدہ فوج ان کے مقابلے میں غیر یقینی پن کا شکار ہوتی ہے ۔ اس طرح پاک فوج اورطالبان اور دہشت گردی کے حوالے سے منتشر خیالی کا شکار اس منقسم قوم نے فیصلہ کن کارروائی کا موقع گنوا دیا۔ اب جبکہ امریکہ سفارتی طور پر طالبان کو تسلیم کر رہا ہے، ہمارے لئے یہ پیش رفت طالبان کی کامیابی کے مترادف ہے، لیکن ہم بھول رہے ہیں کہ جو چیز ملاعمر کے لئے فتح کی نوید ہے، وہ ہمارے لئے پیغام ِ مرگ ہے کیونکہ ملاعمر کی اسلامی ریاست ، جو بس امریکیوں کی روانگی کی منتظر ہے، کے قائم ہوتے ہی اس کی نظریاتی حدود کے آہنی خدوخال حکیم الله محسود کی صورت میں پاکستان کے اندر تک سرائیت کر آئیں گے۔ بہرحال ہمیں دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری تاریخ کا کوئی نیا باب نہیں لکھا جارہا ہے، بلکہ تاریخ خود کو معکوس چکر میں دہرارہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی شمال مغربی سرحد کے علاقے افغان سلطنت میں شامل تھے۔ یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ تھے جنھوں نے افغانوں کو پیچھے دھکیل کر ان پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد یہ علاقے برطانوی راج کے تسلط میں آگئے اور ان کے بعد پاکستان کی جغرافیائی حدود میں مانے گئے۔ تاہم 1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت اور پھر 2001 ء میں امریکی مداخلت نے ان علاقوں پر سے پاکستان کے کنٹرول کو کمزور کر دیا۔ تاریخ کا چکر کتنا ستم ظریف ہے، جنرل ضیاء کی کمان میں کام کرنے والے ہمارے جنرل افغانستان میں اسٹرٹیجک گہرائی تلاش کررہے تھے جبکہ طالبان اور القاعدہ اس ”نیک مقصد“ کی خاطر پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ آج ،جبکہ امریکیوں اور طالبان کے مذاکرات ہونے جارہے ہیں، ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ امریکی طالبان سے ہتھیار رکھوا کر اُنہیں کسی گمنام سرزمین کی طرف روانہ کرنے نہیں جارہے ہیں، بلکہ وہ صرف اپنی عزت بچاتے ہوئے یہاں سے انخلا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ طالبان سے کہنا چاہتے ہیں کہ دیکھو ہم یہاں سے جارہے ہیں، ہمیں جانے دو، اس کے بعد تم جانواور تمہارا کام جانے! کیا ہمارے لیے اس صورت ِ حال میں نوشتہ ٴ دیوار ہے یا نہیں؟حامد کرزئی ہم سے زیادہ سمجھدار دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے غصیلے بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ وہ جان گئے ہیں کہ اُنہیں امریکیوں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اب وہ اپنے مقاصد کے لئے اُس کے جانی دشمنوں (طالبان) کے ساتھ، اگر کوئی معاہدہ نہیں تو بھی، مذاکرات کررہے ہیں۔ بہرحال ، قہر ِ درویش ، بر جان ِ درویش، امریکیوں کو ان کے غصے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ بہرحال حامد کرزئی حقیقی خطرے کا ادراک تو رکھتے ہیں، لیکن بعض لوگوں کے خیال میں ہم ٹشوپیپر ، جس سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیاجاتا ہے، کی طرح ہرکسی کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔ یہ ہماری ”ٹشوانہ روش “ ضیا دور سے شروع ہوئی، ہنوز جاری ہے ، بلکہ اس ضمن میں ہماری مہارت کا ایک جہاں گواہ ہے، بلکہ ہماری ذہنیت دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ترقی کے امکانات روشن ہیں۔
بعض اور وجوہات کی بنا پر بھی ہماری جنگ کی حدود سمٹ چکی ہیں۔ ایک وجہ تو مرکز میں نئی حکومت ہے جو شروع دن سے ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ نئے وزیر ِ داخلہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کے بارے میں کھرے کھرے بیانات دیتے رہتے ہیں اور ان میں کچھ صداقت بھی ہوتی ہے ، لیکن ان سے آپ یہ توقع نہ کریں کہ وہ طالبان کی مذمت میں ایک جملہ بھی کہنے کے روادار ہوں گے۔ اگرچہ نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ضیاء کے دست ِ شفقت تلے کیا لیکن وہ بنیاد پرست نہیں ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نازک وقت میں ہمارے وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار علی خان ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ دراصل بنیاد پرست ہیں۔ گزشتہ پانچ سال سے ہم وزارت ِ داخلہ کو لکی ایرانی سرکس کی طرح قلابازیاں کھاتے دیکھتے رہے،اب اس میں بنیاد پرستی کا ”ٹھہراؤ “ در آیا ہے۔ کوئٹہ میں ہونے والی خونریزی کی لشکر ِ جھنگوی نے ذمہ داری قبول کی تھی چوہدری صاحب کا کہنا ہے کہ بلوچستان پر بہت جلد کانفرنس بلائی جائے گی۔
عمران خان بھی طالبان سے بات چیت کرنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ جیسے یہ ”مذاکراتی عامل “ کم نہ تھے، محمود خان اچکزئی، جن کی تعریف میں میڈیااس طرح رطب السان ہے گویا ان کی تقریر ابراہیم لنکن کا خطاب ِ ثانی ہو، نے اسمبلی میں کہا ہے کہ فوج کو قبائلی علاقوں سے واپس آجانا چاہیے۔ ایک بات اور، فوج بھی شمالی وزیرستان کی ریاست کے خلاف آپریشن کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ اب جب کہ سیاسی قیادت کی یہ سوچ ہے تو آپریشن کا جو رہا سہا گردشی جھونکا تھا، وہ بھی ہوا ہو چکا ہوگا۔ جنرل کیانی صاحب کی توسیع شدہ مدت ِ ملازمت اس موسم ِ خزاں میں تمام ہونے والی ہے ، چنانچہ وہ جواز پیش کرسکتے ہیں کہ وہ بہت بڑی پلاننگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
چنانچہ اب جب طالبان سے بات چیت ہوگی تو کیا ہم اس گفتگو کی نوعیت کا ادراک رکھتے ہیں؟جب طالبان کی امریکیوں کے ساتھ بات چیت ہوگی تو یا تووہ فاتح اور مفتوح(امریکہ اور طالبان) کے درمیان ہو گی جس میں فاتح اپنی شرائط منوائے گا اور شکست خوردہ کے پاس ان کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ یا پھر یہ گفتگو دو برابر کے حریفوں، جس میں نہ کوئی خود کو فاتح سمجھے گا اور نہ مفتوح، کے درمیان ہوگی۔ ایسی صورت میں ”کچھ لو ، کچھ دو“ پر بات ختم ہوگی کہ فریقین کواپنے رویوں میں کچھ لچک پیدا کرتے ہوئے دوسرے کا موقف ماننا اور اپنا منوانا ہوگا۔ لیکن کیا پاکستانی امن پسندوں کی لابی یہ سمجھ رہی ہے کہ یہی صورت ِ حال پاکستان اور طالبان کے درمیان بھی پائی جاتی ہے؟ہر گزنہیں، پاکستانی طالبان سے اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں ہے۔ نہ ہی حکیم الله محسود کے د ل کے نہاں خانے میں ایسی کوئی خواہش مچل رہی ہے کہ وہ پہاڑوں سے اتر کر بھاگے بھاگے جائیں اور پاکستانی حکام کے قدموں میں ہتھیار رکھ کر معافی کے طلب گار ہوں۔ طالبان بھی ہتھیار ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ پھر ہم کیا بات کریں گے، کس نکتے پر مذاکرات ہوں گے؟
ہم کہیں گے کہ دہشت گردی اور خود کش حملے ختم کردیں اور اس کے جواب میں طالبان کہیں گے”ٹھیک ہے، ہم دہشت گردی نہیں کرتے، آپ بھی فوجی آپریشن بند کر دیں اور ڈرون حملوں پر امریکہ سے سنجیدگی سے بات کریں“۔ دو مساوی طاقتوں ، جو ایک دوسرے کو شکست نہیں دے سکی ہیں، کے درمیان ایک حقیقت پسندانہ لین دین ہے، جو کہ ایک اچھی پیش رفت کہی جاسکتی ہے(ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد ہم حسب ِ عادت مٹھائیاں بھی بانٹنی شروع کردیں )، لیکن کیا اس کے مضمرات پر ہماری نگاہ ہے؟ہمارے قبائلی علاقے ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور طالبان کا جھکاؤ پہلے کی طرح اسلامی امارت افغانستان کی طرف مزید بڑھ جائے گا۔ اگر امن قائم کرنے کی یہی صورت ہے ، جس پر سب کا اتفاق ہے ، تو یہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہی ہے۔ تاہم اگر پے در پے حماقتیں ہمیں اس منزل پر لے ہی آئی ہیں تو شکوہ کس بات کا؟ویسے بھی جو لاعلاج مسئلہ ہو ، اُسے تسلیم کرنا ہی دانائی ہے۔ اگر عمران خاں، چوہدری نثار، محمود اچکزئی اور فضل الرحمان کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا جائے امکان ہے۔
وہ پھر ان کے پاس دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کا موقع نہیں ہوگا، بلکہ انہیں خود ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔ اس کے علاوہ قوم کو ایک اور بھی مزیدار تماشا دیکھنے کو ملے گا کہ طالبان کسی طرح ان صلح پسندوں کو الّو بناتے ہوئے اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں۔ ہمارے دفاعی ادارے اس وقت تصورات سے عاری ہیں۔ اس کی صفوں میں کوئی مصطفی کمال نہیں ہے اور نہ ہی یہ ترک فوج ہے۔ یہ بھی اتنی ہی کنفیوز ہے جتنے سیاسی رہنما۔ چنانچہ فوج کے لئے بہتر یہی ہے کہ جو بھی غلطی ہونی ہے، جو ہم کرنے جارہے ہیں، تو وہ سیاسی قیادت کے ہاتھوں سے ہی سرزد ہو۔ مجھے یہ بار بار کہنا اچھا تو نہیں لگتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوم سازی کی راہ پر چلتے چلتے ہمارے ہاتھ میں تین چیزیں ہی رہ گئی ہیں… پنجاب، بم اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی۔ لشکر ِ جھنگوی کی طرف سے کوئٹہ میں کی گئی خونریزی کے بعد اگر کوئی حقیقی معنوں میں لیڈرہوتا تو اُس کا کیا رد ِ عمل ہوتا؟ وہ یقیناً اس متحیر قوم کو کوئی واضح منزل کی جھلک دکھاکر بتاتا ہے کہ ان بچیوں کی ہلاکت کے بعد اب ہمارے پاس کرنے کے لیے لالحہ عمل باقی ہے۔ وہ پنجاب میں موجود انتہا پسندوں کے خلاف ایکشن لیتا، لیکن ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ بس حکومت کی طرف سے کچھ زبانی جمع خرچ، کچھ مذمت اور بس ختم۔ پسِ تحریر: سادگی پر مبنی بجٹ کے فوراً بعد پارلیمنٹ کے 33 وزراء کے کمروں میں نئے دو دو ٹن کے ائیر کنڈیشن، نئے ایل سی ڈی ٹی وی، نئے فرش، نئے باتھ رومز اور نئی تزئین و آرائش کی گئی ہے اور یہ سب کچھ ایمرجنسی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔ یقینا سادگی کی یہ نہایت عمدہ مثال ہے ۔ قوم کو اپنے درویش رہنماؤں پر فخر ہے۔
تازہ ترین