• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دلیل یہ ہے کہ اگر امریکہ طالبان سے مذاکرات کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔ یہ دلیل اس انداز اور لہجے میں پیش کی جاتی ہے کہ جیسے دوسرے کو لاجواب کردیا۔ جیسے پرانے، بے تکلف دوستوں کی محفل میں کوئی ایک بات کہے اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا دے۔ ہاتھ لااستاد، کیوں کیسی کہی؟ لیکن اگر ہم غور کریں تو بات اتنی واضح نہیں ہے۔ کئی مشکل سوال اس دھند میں چھپے ہیں۔ ہم جن طالبان سے مذاکرات کا جواز چاہتے ہیں انہوں نے ہماری سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں۔ امریکہ کی سرزمین پر تو طالبان نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ کیا امریکہ کبھی القاعدہ سے مذاکرات کا حامی تھا؟ کیا امریکہ نے کبھی اس شخص سے گفت و شنید کے بارے میں سوچا تھا جس کی تلاش میں اس نے کئی سال لگا دئیے اور آخرکار اپنے ایک دوست ملک پر شب خون مارنے کا خطرہ بھی مول لیا۔ ایک اور پیچیدگی یہاں یہ پیدا ہوتی ہے کہ تقریباً وہ تمام لوگ جو اس دلیل کو جائز سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ طالبان سے مذاکرات کرے تو ہم بھی یہی کرسکتے ہیں دراصل اس خطے میں امریکی پالیسیوں کے مخالف رہے ہیں۔ اس پوری کہانی میں وہ امریکہ کو ایک ولن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تو پھر ایک ولن کے کسی اقدام کو قابل تقلید کیوں سمجھا جائے؟
یہ اور اسی نوعیت کے سوالات اور تبصرے اپنی جگہ، اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔ گویا طالبان سے بات کرنا یا نہ کرنا اپنی جگہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا جب تک کہ کسی بھی حکمت عملی کے نتیجے میں ملک میں امن قائم نہ کیا جاسکے اور ملک کی خودمختاری اور اس کے آئین کے تحفظ کو یقینی نہ بنایا جاسکے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے کئے گئے معاہدوں کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے، طالبان سے مذاکرات کا ارادہ خود فریبی کے مترادف ہے۔ آخر طالبان نے ایسا کوئی اشارہ تو نہیں دیا کہ وہ پاکستان کے وجود اور اس کے آئینی نظام کو تسلیم کرتے ہوئے مفاہمت کے خواہاں ہیں۔ بلکہ جو کچھ حالیہ دنوں میں ہوا ہے اس کا پیغام واضح ہونا چاہئے۔ خیبر پختون خوا میں۔ تحریک انصاف کی قیادت میں قائم حکومت کے ابتدائی دنوں میں دہشت گردی کے اتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں۔ آخر عمران خاں اور تحریک انصاف کے بارے میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے لئے ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ پورے منظرنامے کو صرف ڈرون حملوں کی کھڑکی سے دیکھتے ہیں اور دہشت گردی کی جڑیں جس طرح گہری ہوتی جارہی ہیں اس کو سمجھنے کی شاید انہوں نے ابھی تک کوشش نہیں کی ہے۔ مثلاً منگل کے دن، ضلع مردان کے علاقے شیرگڑھ میں جو خودکش بم دھماکہ ہوا، اس کی گونج نے کیا ان کے دماغ کو ہلاکر نہیں رکھ دیا؟ خدا کا غضب 30 سے زائد افراد اس دھماکے میں شہید ہوئے کہ جو نماز جنازہ کی ادائیگی کے دوران کیا گیا۔ ان میں تحریک انصاف کے ایک ایم۔پی۔اے بھی شامل تھے۔ اگلے دن، پشاور میں ایک فوجی قافلے پر دہشت گردوں نے راکٹوں سے حملہ کیا اور چھ اہلکار شہید ہوئے۔
ویسے ان واقعات کا حساب رکھنا اور ان کی تفصیل میں جانا اس لئے دشوار ہے کہ آئے دن ہم دل کو دہلا دینے والے کسی المیے سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ گزشتہ ہفتے ہی کی تو بات ہے کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے زیارت میں قائد اعظم کی قیام گاہ پر حملہ کیا گیا۔ عمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ پاکستان کے پرچم کو اتار کر اس کی جگہ بلوچستان لبریشن آرمی کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ دہشت گردی کے اس واقعہ کے معنویت کو سمجھنے کی فکری صلاحیت ہم میں ہے بھی یا نہیں، اس سے قطع نظر، صورت حال اتنی گمبھیر ہوگئی ہے کہ اس دن کے سورج کے غروب ہونے سے پہلے ہی، کوئٹہ میں دہشت گردی کے ایسے ہولناک واقعات ہوئے کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی جیسے مفلوج ہوگئی۔ یہ کون لوگ ہیں جو یونیورسٹی کی طالبات کو اس طرح شہید کرتے ہیں اور اسپتال میں زیر علاج زخمیوں پر حملہ کرتے ہیں؟ کوئٹہ کے دھماکوں اور فائرنگ نے فطری طور پر پوری قوم کو اس لئے حیران کردیا کہ آخر یہ سانحے بار بار کیوں ہورہے ہیں اور جو تنظیمیں اتنی تباہی پھیلانے کی قوت رکھتی ہیں آخر انہیں کسی نے تو پالا ہے تو کیا ہماری افواج اور ہماری حکومت ان وحشی طاقتوں کے آگے بے بس ہے؟ ایک سطح پر ذرا سی امید یہ پیدا ہوئی ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف ایک ٹھوس پالیسی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ لیکن کئی خدشات پیچھا نہیں چھوڑتے۔ یہ یقین نہیں آتا کہ حکمراں دہشت گردی کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار ہیں۔ زیارت کی زیذیڈنسی کو دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان تو ہوچکا ہے۔ اس پاکستان کو دوبارہ کون تعمیر کرے گا جس کے خالق اور پہلے وزیر خارجہ اور پہلے وزیر قانون کے مذہب اور مسلک سے ہم واقف ہیں۔
گفتگو کا آغاز اس سوال سے ہوا تھا کہ کیا طالبان سے مذاکرات کئے جائیں یا نہیں۔ لیکن معاملہ صرف طالبان کی دہشت گردی تک محدود نہیں ہے۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ اچھے طالبان کہاں ہیں اور برے طالبان کی پہچان کیا ہے۔ قبائلی علاقوں کی کہانی، کراچی کی کہانی سے مختلف ہے۔ زیارت کا پیغام کچھ اور ہے اور کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر کئے جانے والے حملوں کی بنیاد کچھ اور ان ساری پیچیدگیوں پر، خوف کی اس فضا میں، بات تک کرنا آسان نہیں ہے۔ ریاست اپنی طاقت کا دانشمندی سے استعمال کرے تو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مسمار کیا جاسکتا ہے لیکن زیادہ بڑا چیلنج اس ذہن کو تبدیل کرنا ہے جس نے دہشت گردی کی آبیاری کی ہے۔ اب یہ دیکھئے کہ جب پاکستان نے، افغانستان میں طالبان کی حکومت کی انگلی پکڑی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ طالبان تو لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف تھے اور لڑکیوں کے اسکول کھولنے پر راضی نہ تھے۔ پاکستان کی حکومت کی سربراہی اس وقت ایک خاتون کے سپرد تھی، بے نظیر بھٹو نہ صرف مسلمان ملکوں بلکہ پوری دنیا میں خواتین کی خود مختاری کی عظیم الشان سمبل تھیں۔ انکی حکومت نے طالبان سے کئی بار مذاکرات کئے کہ وہ لڑکیوں کے اسکول کھلنے دیں۔ وہ نہیں مانے۔ علماء کا ایک وفد بھی بھیجا گیا کہ ہمارے مذہب نے کب خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی۔ ان تمام کوششوں کے باوجود، طالبان اپنی بات پر اڑے رہے۔ تو یہ سبق تھا ہمارے لئے کہ طالبان سے مذاکرات کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ گوتم بدھ کے وہ مجسمے بھی کہ جو پوری انسانیت کیلئے ایک عظیم تہذیبی ورثہ تھے اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ طالبان اپنے فیصلوں پر کس طرح قائم رہتے ہیں۔ تو کیا اب ان کی سوچ میں اور ان کے نظریات میں کوئی تبدیلی پیدا ہورہی ہے؟ کیا وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ اب وہ لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں؟
تازہ ترین