• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسکاٹ لینڈ کی ڈائری/ طاہر انعام شیخ
اسکاٹش پارلیمنٹ کے الیکشن ہوچکے ہیں جن کے نتائج کوزیادہ غیر متوقع بھی نہیں کہاجاسکتا۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی نے مسلسل چوتھی بار الیکشن جیت کر ایک نئی تاریخ بنائی ہے۔ حالیہ الیکشن کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ تھی کہ یہ صرف حکومت سازی کے لیے نہیں بلکہ ان کے نتائج پر اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی اور برطانوی سالمیت کا بھی گہرا تعلق ہوسکتا ہے۔ اسکاٹش حکومت کی سربراہ نکولا سٹرجن پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ اگر الیکشن میں ان کی پارٹی کو اکثریت ملی تو یہ عوام کی طرف سے آزادی کے ایک نئے ریفرنڈم کے لیے مینڈیٹ دینے کے برابر ہوگا۔ برطانوی حکومت نکولا سٹرجن کی اس بات کو کبھی بھی تسلیم کرنے کے لیے راضی نہیں ہوگی اور ان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ ریفرنڈم کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ بار، بار کھیلا جائے اور خود اسکاٹش نیشنل پارٹی کی اعلیٰ قیادت2014ء کے ریفرنڈم کے دوران کہہ چکی ہے کہ ریفرنڈم ایک پوری نسل کے لیے ہوگا۔ اس کے جواب میں اسکاٹش نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کو اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود اتنی نشستیں نہیں مل سکیں جس کی وہخواہش رکھتی ہے۔ 129کے ایوان میں اس کو64سیٹیں ملی ہیں، جوکہ سادہ اکثریت سے ایک سیٹ کم ہے، لیکن یہ ایک سیٹ زبردست نفسیاتی اور سیاسی اہمیت کی حامل ہے۔ اب اسکاٹش نیشنل پارٹی پارلیمنٹ میں مجموعی اکثریت کا دعویٰ نہیں کرسکتی اور اس کو بجٹ منظور کرانے اور کسی بھی نئی قانون سازی کے لیے کسی دوسری پارٹی کی حمایت کا سہارا لینا پڑے گا اور اس سلسلہ میں بعض اوقات کئی سمجھوتے بھی کرنے پڑ جاتے ہیں۔ نکولا سٹرجن کا کہنا ہے کہ وہ2023ء کے آخر تک آزادی کا نیا ریفرنڈم کرانے کا پروگرام رکھتی ہیں لیکن وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوں گی، ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ نکولا سٹرجن کے لیے اس سلسلہ میں دو باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں، پہلی بات تو یہ کہ وہ ریفرنڈم کو مکمل طور پر آئینی اور قانونی طور پر 2014ء کے ریفرنڈم کی طرح ایسے طریقے سے کرانا چاہتی ہیں جن کو نہ صرف یورپی یونین بلکہ بقایا دنیا بھی تسلیم کرے۔ تب ہی وہ آزادی حاصل کرکے یورپی یونین کا ممبر بننے کے لیے درخواست دے سکتی ہیں، دوسرا مسئلہ ریفرنڈم کرانے کے وقت کا ہے، لوگوں کی آزادی کے بارے میں رائے مختلف عوامل کی بنا پر بدلتی رہتی ہے۔ آج سے ایک سال پیشتر آزادی کی حمایت اپنے عروج یعنی58فیصد تک پہنچ گئی تھی جبکہ اب یہ برابر یعنی تقریباً50فیصد پر ہے۔ فرض کیا کہ کسی موقع پر ویسٹ منسٹر کی پارلیمنٹ اسکاٹش پارلیمنٹ کو آزادی کے دوسرے ریفرنڈم کی اجازت دے دیتی ہے یا نکولا سٹرجن عدالتی یا دیگر ذرائع سے نئے ریفرنڈم کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں لیکن ریفرنڈم کے نتائج میں2014ء کی طرح ناکام ہوجاتی ہیں تو ان کو سابق حکومت کے سربراہ ایلکس سالمنڈ کی طرح اخلاقی طور پر نہ صرف حکومت سے استعفیٰ دینا پڑے گا بلکہ آزادی کا معاملہ بھی ایک طویل عرصے کے لیے دفن ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں نکولا سٹرجن کی حکمت عملی یہی نظر آتی ہے کہ وہ آزادی کے نئے ریفرنڈم کی اجازت حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں تو جاری رکھیں گی لیکن ریفرنڈم اسی وقت کرائیں گی جبکہ ان کو اپنی کامیابی کا مکمل طور پر یقین ہو اور اس کے لیے عوامی حمایت کی شرح40کے مقابلے میں60فیصد ہو۔ حالیہ الیکشن سے قبل کا ایک ڈرامائی واقعہ اسکاٹش لیبر پارٹی کی قیادت کا ایک دم اچانک تبدیل ہونا بھی ہے۔ اسکاٹ لینڈ عرصہ دراز سے لیبر پارٹی کاقلعہ تصور کیا جاتا تھا۔ 1964ء کے بعد دارالعوام میں زیادہ تر لیبر پارٹی ہی اسکاٹ لینڈ کی نمائندگی کرتی رہی۔ اسکاٹ لینڈ میں چونکہ آزادی کی تحریک بھی زور پکڑ رہی تھی۔ ٹونی بلیئر کے زمانے میں تین سو سال کے بعد1999ء میں اسکاٹش پارلیمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کا مقصد اسکاٹش عوام کو زیادہ سے زیادہ اندرونی خودمختاری دینا اور آزادی کی تحریک کو سیاسی طریقے سے ختم یا کم کرنا تھا۔ چنانچہ براہ راست ووٹنگ کے پرانے طریقہ کار اور متناسب نمائندگی کے تحت اسکاٹش پارلیمنٹ کو ایسے طریقے سے ڈیزائن کیا گیا کہ کسی بھی ایک پارٹی کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ناممکن جبکہ سادہ اکثریت حاصل کرنا بھی آسان نہ ہو لیکن اس میں تمام بڑی پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی ملے، اس نظام کا سب سے ز یادہ فائدہ جس پارٹی کو پہنچا وہ اسکاٹش نیشنل پارٹی تھی۔ اگرچہ پہلے دو حکومتیں تو لیبر اور لبرل ڈیمو کریٹ نے مخلوط طور پر بنائیں لیکن اس کے بعد تیسرے الیکشن میں اسکاٹش پارٹی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ اگرچہ129کے ایوان میں اس کی صرف47نشستیں تھیں، لیکن بڑی پارٹی ہونے کی بنا پر اس کو اپنی اقلیتی حکومت قائم کرنے کا موقع مل گیا، اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں نے بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکاٹش نیشنل پارٹی کی اس تاریخی اور اقلیتی حکومت سے تعاون کیا اور یوں اس حکومت نے اپنے رہنما ایلکس سالمنڈ کی قیادت میں5سالہ مدت پوری کی اور مختصر مدت میں بجٹ میں عوامی فلاح و بہبود کے اتنے زیادہ کام کیے کہ مستقبل کے لیے اپنی پارٹی کی مضبوط بنیادیں قائم کرلیں۔ ان کا سب سے بڑا نعرہ آزادی تھا۔ 2014ء کا ریفرنڈم اگرچہ پارٹی ہار گئی لیکن حکومت بدستور قائم اور مستحکم رہی، جس کی قیادت نکولا سٹرجن کے پاس آگئی۔ 2014ء کے ریفرنڈم میں لیبر پارٹی دوسری آزادی مخالف پارٹیوں کنزرویٹو اور لبرل ڈیمو کریٹ کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی لیکن اس موقع پر لیبر کے بعض ووٹرز اس کے کنزرویٹو کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خلاف تھے۔ بریگزٹ کے موقع پر بھی لیبر کا موقف کوئی بہت واضح نہ تھا۔ حالیہ برسوں میں اسکاٹ لینڈ کی سیاست واضح طور پر دو بڑے گروپس آزادی کے حامی اور آزادی مخالف میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایسے لوگ جو آزادی چاہتے تھے وہ اسکاٹش نیشنل پارٹی میں چلے گئے، جبکہ آزادی مخالف کنزرویٹو کئی طرف راغب ہوگئے، جس کا کنزرویٹو کو بہت زیادہ فائدہ پہنچا، جبکہ اس کے مقابلے میں لیبر پارٹی جوکہ دونوں کے عین درمیان میں تھی، وہ معاملات سے غیر متعلق اور کمزور ہوتی چلی گئی اور اس بات کے واضح آثار نظر آنا شروع ہوگئے تھے کہ اس بار2021ء کے اسکاٹش پارلیمنٹ کے الیکشن میں پھر ایک تاریخی شکست سے دوچار ہوگی اور پھر شاید جلد ہی وہ وقت بھی آجائے کہ یہ ایک رسمی پارٹی کے طور پر باقی ر ہے، ایسے مشکل وقت میں بالکل اچانک اور ڈرامائی طور پر پارٹی کے سربراہ رچرڈ لیو نارڈ نے اپنا استعفیٰ دے دیا۔ الیکشن میں صرف چند ماہ باقی تھے، اس مشکل وقت میں پارٹی کی نظریں نوجوان اور باصلاحیت رہنما انس سرور کی طرف اٹھیں جو گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے صاحبزادے ہیں ان کو اکثریت کے ساتھ نیا لیڈر منتخب کرلیا گیا، انس سرور نے پارٹی کو نئے سرے سے منظم کیا اور الیکشن میں ایک بھرپور مہم چلائی، ان کا سب سے بڑا ٹاسک پارٹی میں نیا عزم و حوصلہ پیدا کرنا، پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کو واپس لانا اور اس کو کسی بڑی تباہی سے بچانا تھا۔ جب انس سرور نے پارٹی کی قیادت سنبھالی تو اس کی مقبولیت صرف14فیصد پر آچکی تھی اور مزید نیچے جارہی تھی، انس سرورکے پارٹی قیادت سنبھالتے ہی سروے کے نتائج بہتر ہونا شروع ہوگئے اور وہ پارٹی کو14سے19فیصد پر لے آئے۔ ان کی ذاتی مقبولیت اپنے سابق لیڈر سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی لیکن الیکشن میں وقت اب اتنا کم رہ گیا تھا کہ اس سے بہتر نتائج نہ تھے۔ یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اگر انس سرور اس مشکل وقت میں پارٹی کی قیادت نہ سنبھالتے تو اس کو شاید10سے بھی کم نشستیں ملتی، ان کی شاندار قیادت اور حکمت عملی کی وجہ سے پارٹی کی اب ایک مضبوط بنیاد بن گئی ہے اور امید ہے کہ اپنے آئندہ پانچ سال میں وہ لیبر پارٹی کو اس کا وہی مقام دوبارہ دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے جوکہ تاریخی طور پر اس کا خاصا تھا اور امید کی جاتی ہے کہ جس طرح انہوں نے دنیا بھر میں کسی بڑی سیاسی پارٹی کو پہلے پاکستان نژاد پارٹی سربراہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے وہ2026ء کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے پہلے پاکستان نژاد سربراہ حکومت ہونے کا بھی اعزاز حاصل کرسکتے ہیں۔
تازہ ترین