• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد صادق کھوکھر۔۔۔ لیسٹر
بیسویں صدی کے انسانوں کو اپنے مہذب ہونے پر بڑا ناز تھا۔ اکیسویں صدی اس سے زیادہ مہذب ہونے کی دعوے دارہے۔ بات بات پر اس کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مہذب ہونے کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ شادیانے کیوں نہ بجائے جائیں؟ آج کا انسان چاند سے آگے مریخ تک کو مسخر کر چکا ہے۔ گھر بیٹھے ہی آن لائن کام کاج سنبھال سکتا ہے۔ بٹن دبا کر اپنی من پسند اشیا حاصل کر کے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر کی معلومات چند لمحوں میں حاصل کی جا سکتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود عصرِ حاضر کی تہذیب یافتہ اقوام کی ذہنی اور اخلاقی سطع انتہائی پست ہے۔ سامراجی ذہنیت سے مغلوب یہ اقوام آج بھی دوسری اقوام کو غلام بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ نام نہاد مہذب دنیا مظلوم انسانوں پر نہ صرف ظلم ڈھا رہی ہے بلکہ ہر ظالم کے ظلم کوجواز بھی بخشتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر بڑے ترقی یافتہ ممالک آگے بڑھ کر ظلم میں عملاً شریک ہوتے ہیں اور انسانی بستیوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ ابوغریب اور گوانتاناموبے جیسے عقوبت خانے بنا کر فخر کرتے ہیں۔ اس ظلم کی ایک تازہ ترین مثال اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے نہتے عوام کا قتلِ عام ہے۔ انہیں گولیوں سے بھونا جا رہا ہے۔ املاک تباہ و برباد کی جارہی ہیں۔ مظلوم اور بے بس انسانوں پر بے پناہ ظلم کے پہاڑ توڑ کر ظلم کی شرمناک تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ اس قتلِ عام کو فتح قرار دے کر جشن منائے جا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عزائم اور قول و قرار ہو رہے ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمران بھی اپنی بے حسی اور ابن الوقتی کی رسوا کن تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ان مظلوم اور مفلوک الحال فلسطینی باشندوں کی حالت زارکو دیکھیں جن کی سر زمین کو یورپی اقوام نے زبردستی چھین کر غاصب اسرائیلی قوم کو لا بسایا تھا اور وہاں کے اصل باشندوں یعنی فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا۔ اب ان مظلوموں کا کوئی وطن نہیں۔ وہ دنیا بھر میں در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ تیونس، شام، کویت، قطر، لبنان اور دیگر کئی ممالک میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک نہایت قلیل تعداد غزہ کے علاقے میں آباد ہے۔ اس پر بھی اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ جس کی سرحد مصر اور اسرائیل کے علاوہ کسی اور ملک سے نہیں ملتی۔ مصر بھی اسرائیل کی ایما پر سرحد کو بند کیے ہوئے ہے تاکہ ان کو کہیں سے بھی مدد نہ مل سکے۔ حتیٰ کہ غزہ کا آب اور برقیات کا نظام بھی اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔ جسے جب چاہتا ہے بند کر دیتا ہے۔ ان بے کسوں کی اپنی کوئی فوج نہیں ہے۔اس چھوٹے سے گنجان آباد رقبہ میں تقریباً آدھی آبادی کی عمریں بیس سال سے کم ہیں۔ ایسی خستہ حالت سے دو چار ہونے کے باوجود اسرائیل جب چاہتا ہے ان بے بسوں پر چڑھ دوڑتا ہے۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سمیت عام انسانوں کو شہید کر دیتا ہے۔ ان کے مکانات کو تہہ و بالا کر دینے میں عار محسوس نہیں کرتا ان کی بجلی اور پانی بند کر دیتا ہے۔ میڈیا ہاؤسز کو جان بوجھ کر نشانہ بنا کر تباہ کر رہا ہے تاکہ ظالم کے ظلم کی تشہیر نہ ہوسکے۔ ردِ عمل میں فلسطینی اگر کچھ کرتے ہیں۔ تو اسرائیل اور اس کے حواری انہیں دہشت گرد قرار دے کر آسمان سر پر اٹھا دیتے ہیں۔ یورپی اقوام ڈھٹائی اور بے شرمی سے اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ امریکا شرم کو بالائے طاق رکھ کراس کا دم بھرتا ہے۔ دیگر کئی ممالک بھی یہی روش اختیار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ان کی شہ پر مزید ظلم ڈھاتا ہے۔ جس سے غزہ کی دھرتی خون سے لالہ زار ہوجاتی ہے لیکن مہذب اقوام کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ معصوم بچوں کے قتلِ عام پر فتح کے جشن مناتے ہیں۔ شادیانے بجاتے ہیں۔ عالمِ سرشاری سے مے خوری اور حرام کاری بڑھ جاتی ہے۔ مظلوموں کی آہیں ان کو سنائی نہیں دیتیں۔ ٹی وی پر بچوں کے لاشے دیکھ کر بھی ان کے پتھر دل نہیں پگھلتے، کیونکہ تہذیب یافتہ قوموں کا دل پتھر سے بھی زیادہ سنگ دل ہے۔ ہزاروں برس قبل روم کے متکبر بادشاہ اور نام نہاد معزز شہری کسی مظلوم کو درندوں کے سامنے پھینک کراس کی بے بسی کا نظارہ کرتے اور کبھی دو انسانوں کے ہاتھوں میں تلواریں دے کر لڑاتے تھے۔ تاکہ ان کے خون خرابے کا منظر دیکھ کر کے لطف اندوز ہو سکیں۔ چونکہ اب دنیا زیادہ ترقی یافتہ ہو چکی ہے اس لیے اب دوچار انسانوں کو ہلاک کر لطف اندوز نہیں ہوا جا سکتا۔ اب ہزاروں بے بس عورتوں اور بچوں کو بیک وقت ہلاک کر کے ہی جشن منائے جاتے ہیں۔ مبارک بادیں وصول کی جاتی ہیں۔ در حقیقت یہ انسان دشمن تہذیب ہے جواخلاق و کردار سے عاری اور عدل و انصاف کی دشمن ہے۔ جو بے حس اور انسانی احساسات سے خالی ہے۔ یہ کہنے کو تو جدید ترین تہذیب ہے لیکن اپنی خصوصیات سے پتھر کے زمانے کی چربہ ہے۔ یہ آج بھی عہدِ قدیم کی تمام تر خصوصیات پر عمل پیرا ہے۔ وہی عہدِ کہن کی انسان دشمنی، وہی عریانی و مے خواری اور سود خوری، وہی بد عہدی اور سنگ دلی۔ ظاہر ہے جو تمدن خواہشاتِ نفس کی غلامی میں تشکیل پاتا ہے وہ انسان دوست تو نہیں ہو سکتا۔ اس لیے خدا پرست اور حساس انسان ایسی تہذیب سے پناہ مانگتا ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے اور مظلوموں کی مدد فرمائے۔ آمین
تازہ ترین