• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں بھارت کے شہر ممبئی میں انتہائی مہلک یورینیم کی کھلے عام فروخت نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس سے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے یورینیم کی سرعام فروخت سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ بھارتی جوہری مواد اب غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ انسانی زندگی کیلئے انتہائی خطرناک 7کلوگرام یورینیم جو عام طور پر جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہوتا ہے، دو بھارتیوں کے قبضے سے برآمد ہوا تھا جسے فروخت کرنے کیلئے وہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں خریدار ڈھونڈ رہے تھے اور اس قدرتی یورینیم کی قیمت 21کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارت میں کھلے عام یورینیم کی فروخت اور برآمدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی سے واقعہ کا سختی سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایٹمی مواد کی حفاظت تمام ممالک کی اولین ترجیح ہونی چاہئے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ترجمان نے مطالبہ کیا کہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کو بھارت میں پیش آنے والے مذکورہ واقعہ کے حوالے سے وضاحت طلب کرنی چاہئے۔ یورینیم کی برآمدگی پر چین نے بھی سخت موقف اختیار کیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ایٹمی دہشت گردی عالمی برادری کو درپیش سیکورٹی چیلنج ہے اور جوہری مواد کے تحفظ کو یقینی بنانا تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل کسی ملک میں اتنی شفاف اور اعلیٰ کوالٹی کی یورینیم اتنی مقدار میں کبھی نہیں پکڑی گئی۔ اس معاملے کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ برآمد شدہ تابکاری یورینیم کو کسی بھی روایتی ہتھیار سے جوڑ کر بڑا دھماکہ کیا جاسکتا ہے جسے ڈرٹی بم کا نام دیا جاتا ہے۔ ڈرٹی بم میں استعمال ہونے والے تابکاری مواد میں یورینیم کی زیادہ افزودگی کی ضرورت نہیں اور اس بم کے دھماکے کے نتیجے میں نقصان اگرچہ ایٹم بم جتنا نہیں ہوتا مگر ڈرٹی بم ایک مخصوص ایریا میں تباہی پھیلاتا ہے جس سے پیدا ہونے والی تابکاری کے نقصانات شدید ہوتے ہیں۔

بھارت ہمیشہ سے پاکستان کا ایٹمی مواد غیر محفوظ ہونے کا پروپیگنڈہ کرتا رہا ہے مگر آج بھارت میں کھلے عام یورینیم کی فروخت سے بھارتی حکومت کے ایٹمی پروگرام کی سیکورٹی کی قلعی کھل گئی ہے جس نے بھارت کی ایٹمی مواد کے حوالے سے غیر ذمہ داری اور حساس ایٹمی تنصیبات کی سیکورٹی پر متعددسوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ماضی میں بھی بھارت میں اجتماعی و انفرادی طور پر یورینیم چوری کی متعدد وارداتیں ہوچکی ہیں جس پر عالمی برادری اپنی تشویش کا اظہار بھی کرچکی ہے لیکن بھارت نے کبھی اسے سنجیدہ نہیں لیا بلکہ پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کرتا رہا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں جو انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ نہ صرف خود کو ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ثابت کیا بلکہ اس طرح کا کوئی واقعہ پاکستان میں پیش نہیں آیا، اگر جوہری مواد کی کھلے عام فروخت کا یہ واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو بھارت دنیا بھر میں پاکستان کا ایٹمی مواد غیر محفوظ ہونے کا واویلا مچاکر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرچکا ہوتا۔ اتنی بڑی اور تشویشناک خبر پر حکومت پاکستان کا نرم رویہ باعثِ حیرت ہے جبکہ عالمی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اس خبر کو اتنی اہمیت نہیں دی جس کی کہ یہ حامل تھی۔ اس معاملے پر بھارت کی یہ کوشش ہے کہ کورونا کی ہلاکت خیزی کے تناظر میں یورینیم برآمدگی کیس دب جائے تاہم پاکستانی حکومت اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی سطح پر اس تشویشناک خبر کو اجاگر کرے جبکہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کا بھی فرض ہے کہ وہ اس معاملے کی خود تحقیقات کرے کیونکہ نیوکلیئر ری ایکٹر میں استعمال ہونے والا انتہائی خطرناک تابکاری یورینیم بھارتی حکومت کے کنٹرول سے باہر عام لوگوں کے ہاتھ لگنا انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

بھارت میں بڑی مقدار میں حساس ایٹمی مواد ریاست کے کنٹرول سے باہر نکلنے اور فروخت سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارتی جوہری مواد اور ایٹمی تنصیبات غیر محفوظ ہیں جبکہ بھارت میں انتہا پسند تنظیموں کی موجودگی اور بھارت کی طرف سے دوسرے ممالک میں دہشت گردی کے فروغ کے تناظر میں یہ معاملہ مزید سنگین تر ہوجاتا ہے کیونکہ اگر یہ یورینیم بھارت کی کسی ہندو انتہا پسند تنظیم کے ہاتھ لگ جاتا تو ہندو انتہا پسند یورینیم سے ڈرٹی بم بناکرپاکستان کو اپنا ہدف بھی بناسکتے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ گرفتار ملزمان کہیں پہلے بھی یورینیم فروخت کرنے میں کامیاب تو نہیں ہوئے اور یورینیم کے خریدار افراد کا تعلق کس تنظیم یا ملک سے ہے؟ ایٹمی طاقتوں کے حامل ممالک کی اپنے ایٹمی مواد کی حفاظت اولین ترجیح ہونا چاہئے نہ کہ وہ سڑکوں پر سرعام فروخت کیا جائے جس سے دہشت گرد فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور اگر کوئی ملک اپنے ایٹمی مواد کی حفاظت میں ناکام رہتا ہے تو اس ملک کے ایٹمی پروگرام پر عالمی پابندیاں عائد کی جائیں۔ سلامتی کونسل اور IAEA کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت میں پیش آنے والے واقعہ کی بلاتفریق شفاف تحقیقات کرائے، ایٹمی مواد کی حفاظت میں غفلت برتنے والے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور بھارتی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرایا جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور سدباب کیا جاسکے۔

تازہ ترین