• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رنگ روڈ تنازع،’سرکاری عہدیدار‘ بمقابلہ ’سرکاری عہدیدار‘

اسلام آباد (انصار عباسی) حکومت کی جانب سے منظور کی جانے والی رنگ روڈ پروجیکٹ اقلیتی انکوائری رپورٹ میں دو مواقع پر ’’سرکاری عہدیداروں‘‘ کے مشکوک کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔

اگرچہ سرکاری عہدیداروں کا نام نہیں لیا گیا لیکن رپورٹ لکھنے والے (موجودہ کمشنر راولپنڈی) نے چالاکی کے ساتھ ان کی شناخت دکھانے کی کوشش کی ہے لیکن مبہم انداز سے۔ تاہم، غیر رسمی طور پر مختلف صحافیوں کے ذریعے ان سرکاری عہدیداروں کے نام افشاء کیے جا چکے ہیں اور الزام ہے کہ یہ کام کچھ اہم سرکاری افراد نے کیا ہے۔

سینئر بیوروکریٹ ڈاکٹر توقیر شاہ (جن کا تعلق سنگجیانی گائوں کے مالک خاندان میں سے ہے) کا نام لیتے ہوئے رپورٹ کے پیرا نمبر 41؍ میں کہا گیا ہے کہ ایک اہم اور با اثر سرکاری شخصیت نے ڈاکٹر توقیر شاہ کے حق میں سابق کمشنر اور ساتھ ہی پر اثر رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی۔

یہ مبہم حوالہ ذلفی بخاری کی طرف اشارہ کرنے کیلئے دیا گیا ہے اور ان کا نام بھی نہیں لیا گیا۔ تاہم، رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ذلفی بخاری براہِ راست توقیر شاہ سے تعلقات نہیں رکھتے۔

ڈاکٹر توقیر فیملی اور ان کے کزن مل کر سنگجیانی ولیج کے مالکان ہیں۔ ان کے کزن بخاری کے سگے ماموں ہیں لیکن رپورٹ میں ’’ایک با اثر شخصیت جو اس وقت ایک اہم سرکاری عہدے پر ہیں‘‘ کہہ کر توقیر شاہ سے تعلق جوڑا گیا ہے لیکن بخاری کے سگے ماموں کا حوالہ بھی نہیں دیا گیا۔

چند روز قبل اس نمائندے نے ذلفی بخاری سے بات کی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ اور ان کے سگے رشتہ داروں میں سے کسی کے پاس بھی سنگجیانی میں زمین نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے اپنے ننھیال کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔

رپورٹ کے پیرا نمبر 49؍ میں کمشنر راولپنڈی نے سابقہ پیرا میں نووا سٹی ہائوسنگ سوسائٹی اور سول ایوی ایشن کی جانب سے اِسے این او سی جاری کیے جانے پر مفصل رائے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آر تھری پر دیگر کئی ہائوسنگ سوسائٹیز کو منظور شدہ تعداد سے زیادہ زمین فروخت کیے جانے، سرکاری عہدیداروں کے بے نامی مفادات وغیرہ کی وجہ سے نقصان ہو سکتا ہے۔

ایک مرتبہ پھر اس پیرا میں بھی سرکاری عہدیداروں کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے لیکن غیر رسمی طور پر میڈیا میں وفاقی وزیر سرور خان کا نام افشاء کیا گیا۔ پیرا نمبر 48؍ میں رپورٹ میں اسی سوسائٹی کے متعلق ’’طاقتور بے نامی ملکیت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نووا سٹی نے سوشل میڈیا پر اپنا نقشہ مشتہر کیا جس میں ایس ایف زیڈ میں اس کا رقبہ دکھایا گیا تھا اور ممکنہ طور پر فنل ایریا بھی؛ ایس ایف زیڈ کی کھلی خلاف ورزی کے باوجود نووا سٹی کیسے کام کرتا رہا، اس کا شاید طاقتور بے نامی ملکیتوں سے تعلق ہو سکتا ہے جس کی مزید تحقیقات ہونا چاہئے۔

منگل کو پریس کانفرنس کے دوران، وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ رپورٹ میں کابینہ کے کسی رکن کا نام نہیں لیا گیا۔ میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق، ذلفی بخاری اور وزیر ہوابازی سرور خان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ فی الوقت کسی بھی معاون یا وزیر کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بخاری نے اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دیدیا جبکہ سرور خان نے دوٹوک انداز سے اس معاملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ دونوں عہدیداروں نے الزامات مسترد کیے ہیں اور کہا ہے کہ انہیں اس معاملے میں زبردستی گھسیٹا جا رہا ہے۔

رپورٹ لکھنے والے موجودہ کمشنر راولپنڈی نے اور نہ ہی حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ اگر بخاری اور سرور خان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تو رپورٹ میں سرکاری عہدیداروں کے مشکوک کردار کا ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ اگر رپورٹ میں جن سرکاری عہدیداروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سرور خان اور ذلفی بخاری نہیں تو وہ کون ہیں اور ان کا نام کیوں نہیں دیا گیا۔ یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ کچھ دیگر سرکاری عہدیدار ہیں جو میڈیا میں بخاری اور سرور خان کے نام لیک کر رہے ہیں۔

تازہ ترین