• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر اوبامہ نے جنگ میں کودنے سے قبل بیان دیا ہے ہم شام میں امن اور جمہوریت چاہتے ہیں ۔خدا کرے نیتوں کا فتور آڑے نہ آئے ۔انسان نہ جانے کب دوسروں کے انجام سے اور اپنے ماضی سے سبق سیکھنا شروع کریگا ۔ہر کوئی اپنا تجربہ کرنا چاہتا ہے دوسروں کے تجربے سے گریز پا ہے ۔کرنل قذافی کے حشر پر میں نے کالم لکھا تھا کوئی قذافی کے حشر سے سبق نہیں سیکھے گا وہ کسی کے لئے مقام عبرت نہیں بنے گا ۔اس نے صدام کے حشر سے سبق نہیں سیکھا تھا ۔دوسرے بھی اس کے حشر سے سبق نہیں سیکھیں گے۔ کا ش قذافی نوشتہ دیوار پڑھ لیتا ۔عوامی شعور کا ساتھ دیتا مغرب سے سیکھتا ۔ملک کو آئین دیتا۔ الیکشن منعقد کرواتا اور انتقال اقتدار آئینی طریقے سے کرتا تو آج بھی لیبیا کی آغوش اس کے لئے وا ہوتی۔ جمہوریت بد ترین شکل میں بھی اسی لئے بہتر مانی جاتی ہے کہ جمہوریت میں انتقال اقتدار کا دروازہ کسی نہ کسی انداز میں کھلا رہتا ہے ۔تلوار کی جس نوک پر کل صدام اور قذافی تھے آج بشر الاسد ہے ۔تاریخ سے سیکھنے کی بجائے مکھی پہ مکھی مار رہا ہے ۔93ہزار شامی اس جنگ کی بھٹی میں جل چکے ہیں اس سے زیادہ اپنے اعضاء کھوکر کسمپرسی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں پڑوسی ملکوں میں پناہ گزیں ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا جب پہلی مخالف آواز اٹھی تھی، صدر اسد اسے گولی سے دبانے کی بجائے آئین ،قانون اور جمہوری طریق سے دبانے کی کوشش کرتے۔انتقال اقتدار کا راستہ اختیار کرتے تو قوم کے ہیرو بن جاتے،مگر انہوں نے تباہی کا راستہ اختیار کیا اور ولن بننے کو ترجیح دی ۔ریاست کے باغیوں کی مدد برطانیہ ،فرانس اور دیگر مغربی ممالک کر رہے ہیں بشر الاسد کو روس ،چین اسلحہ بیچ رہے ہیں ۔کوئی آگے بڑھ کر امن کا دروازہ کھولنے کو تیار نہیں ۔امریکہ نے وہی اسٹریٹیجی اختیار کی ہے جو وہ لیبیا میں کامیابی سے استعمال کر چکا ہے ۔پہلے برطانیہ اور فرانس نے قذافی کو کمزور کیا اور سی آئی اے نے بھرپور وارکرکے 1969کی شکست کا بدلہ لے لیا ۔قارئین کی رہنمائی کیلئے میں مختصرسی تفصیل دینا چاہوں گا۔لیبیامیں شاہ ادریس کی حکومت تھی۔تیل دریافت ہو چکا تھا مگر لیبیا کو کچھ نہیں مل رہا تھا ۔شاہ ادریس کو شاہی اخراجات کے لئے معمولی سی رائلٹی تیل نکالنے والی کمپنیاں دے دیتی تھیں۔شاہ کا چل چلاؤ تھا کیونکہ کے جی بی اور سی آئی اے لیبیا میں شاہ کے خلاف متحرک ہو چکی تھیں۔سی آئی اے کرنل سعد کی پشت پر تھی اور کے جی بی کرنل قذافی کے ساتھ تھی۔کے جی بی نے زیادہ ہوشیاری دکھائی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔کرنل سعد کو تختہ ملا اور قذافی کو تخت ۔سی آئی اے ایک لمحہ کیلئے اس شکست کو نہ بھولی یا قذافی اور کے جی بی نے اسے بھولنے نہ دیا ۔قذافی کی موت سی آئی اے کے انتقام اور فتح پر منتج ہوئی ۔شام میں بھی وہی راستہ اختیار کیا گیا ہے ۔شام اور لیبیا کی ماضی قریب کی تاریخ بھی کامن ہے ۔شام میں صدر بشار الاسد کے والد جنرل حافظ الاسد نے کے جی بی کی مدد سے بادشاہت کا خاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا ۔وہ تاحیات صدر رہے امریکی مفادات سے ٹکراتے رہے ،مگر بہترین طرز حکمرانی جمہوریت کو نظر انداز کیا ۔انکی موت کے بعد صدارت بادشاہت کی طرح ان کے بڑے بیٹے بشر الاسد نے سنبھال لی ۔بیروت امریکہ اسرائیل اور شام کے درمیان میدان جنگ بنا رہا ۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کے جی بی بھی سمٹ چکی اور انکے حامیان بھی کمزور پڑ گئے ۔ بیروت کے سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کے قتل کو امریکہ نے استعمال کرکے شام کو بیروت سے نکلنے پر مجبور کر دیا ۔مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی لہر اٹھی یا اٹھائی گئی مگر اس کی رومیں صدارتیں بہہ گئیں، بادشاہتیں کھڑی رہیں ۔بشر الاسدآخری صدر ہیں جن کا حشر بھی دیوار پر لکھا جا چکا ہے۔اب بھی اگر روس اور امریکہ چاہیں تو اپنے اپنے گھوڑوں کی لگامیں کھینچ کر شام کو امن دے سکتے ہیں ۔روس اسد کو سیاسی پناہ دے دے اور دونوں قوتیں مل کر شام میں ایک آئینی حکومت بنانے کی راہ ہموار کرکے انسانیت پر احسان کر سکتے ہیں، مگر مذہب کے خانے میں بٹے اور طاقت کے پجاری شاید ہی ایسا کر پائیں ۔گو سی آئی اے شام میں متحرک ہے مگر امریکی ہاتھ سمٹ سمٹا کر کام کر رہا تھا ۔صدر اوبامہ پر سینیٹ،کانگرس کا دباؤ تھا مگر وہ کھلی مداخلت سے گریزاں تھے ۔صدر بشار الاسد کو امریکہ نے ڈیڈ لائن دے رکھی تھی وہ باغیوں کے خلاف کیمیکل ہتھیار استعمال نہ کرے خلاف ورزی کی صورت میں امریکہ باغیوں کی مدد کے لئے مجبور ہو گا ۔جنگ کا سیناریو بدل چکاہے ،باغی طاقت پکڑ رہے ہیں بشار الا سد کو ایک طاقتور جھٹکے کی ضرورت ہے۔صدر اوبامہ پر ریپبلکن،ڈیموکریٹس کا مشترکہ پریشر تو تھا ہی سابق صدر بل کلنٹن کے متواتر بیانات نے اس پریشر میں بہت اضافہ کر دیا ۔یہ پریشر کا اعجاز ہے یا اسٹرٹیجی، صدر اوبامہ نے 14 جون کوباغیوں کو اسلحہ سپلائی کرنے کا فیصلہ دے دیا ۔روسی وزیر خارجہ نے امریکی صدر کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بیان دیا ہے امریکی ایجنسیوں کی رپورٹس غلط اور بے بنیاد ہیں ۔کیمیکل ہتھیاروں کی سیمپلنگ اور ٹیسٹنگ کی تصدیق آزاد ذرائع نہیں کرتے۔امریکی ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق 100سے 150 کے قریب اموات کیمیکل ہتھیاروں سے ہوئی ہیں جو سول وار میں مرنے والے 93ہزار شامیوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس فیصلے کے مخالف امریکی کہتے ہیں اتنی معمولی تعداد جنگ میں کودنے کا جواز نہیں محض بہانہ سازی ہے ۔اس سے جنگ میں امریکہ کا رول بڑھ جائیگا ،خصوصاً اینٹی ٹینک ہتھیار وں کی سپلائی باغیوں کیلئے بہت بڑی مدد ہو گی ۔مگر سوال پیدا ہوتا ہے انتظامیہ ہتھیاروں کی تقسیم کے وقت القائدہ کے حامیان اور جہادی گروپس کو ہتھیاروں سے کیسے دور رکھ سکے گی۔دوسرا سوال ہے باغیوں کو مسلح کرنے کے بعد کیا ہو گا ۔وہی جو لیبیا میں ہوا ،خانہ جنگی تباہی بربادی ۔ تیل کی لوٹ مار مگر شام میں تو تیل کی پیداوار بھی قابل ذکر نہیں ۔ صدر اوبامہ کے فیصلے سے غالب امکان ہے روس شام کو اسلحے کی سپلائی بڑھا دے ۔ایران بھی امداد میں اضافہ کرے گا اور حزب اللہ کے گوریلے ایرانی، روسی اسلحے کے علاوہ امریکی اسلحہ بھی حاصل کریں گے ۔جنگ کی خوفناکیوں میں اضافہ ہو گا اور شامیوں کی بہت بڑی تعداد جنگ کی بھٹی کا ایندھن بنے گی۔مہاجرت میں اضافہ ہوگا ۔پڑوسی ممالک خصوصاً اردن میں شامی مہاجرین کا بہت دباؤ بڑھے گا ۔امریکہ کے دشمنوں میں اضافہ ہو گا اور دوست کمزور ہو نگے ۔سعودی عرب کا غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا پروگرام آنے والے سیناریو کا پیش خیمہ ہے ۔امریکہ میں ایک بہت بڑی رائے عامہ اس خیال کی حامی ہے ہم نے عراق اور افغان جنگ سے کچھ نہیں سیکھا جس کے نتائج امریکیوں کیلئے بہت مبہم ہیں ۔میں پھر کہوں گا انسان نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ۔مختلف بنیادوں پرگروہوں میں بٹے انسان یا تو ایک دوسرے کو دبانے کی کوشش میں غلطاں ہیں یا کسی ماضی کے انتقام کے درپے ۔آؤماضی کی تلخیاں بھلا کر سب امن کا دامن تھامیں۔صدر اوبامہ کا بیان قابل تعریف ہے ہم شام میں امن اور جمہوریت چاہتے ہیں ۔انسانیت اس بیان اور عمل کے اشتراک کی منتظر ہے ۔خدا کرے نیّتوں کا فتور آڑے نہ آئے ۔سب متحارب قوتیں مل کر جنگ سے امن کا راستہ نکالیں اور شامیوں کو تحفظ دیں۔روسی امریکی اسکالرزاس بات پر متفق ہیں وہ دونوں enlightedماڈرن ہیں، انہوں نے افغانستان میں مذہب پرستوں کو استعمال کرکے غلطی کی ہے۔امید رکھنی چاہیے وہ غلطی کو دہرائیں گے نہیں۔جنگ کو فرقوں کے چنگل سے نکال کر شامیوں کو امن اور جمہوریت دیں گے ۔دنیا امید پر قائم ہے۔امید کا دامن پکڑے رکھنے میں ہی بقاء ہے۔
تازہ ترین