• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج پھر مختلف موضوعات کو مکس کر کے ”کاک ٹیل“ تیار کرتے ہیں۔ ”کاک ٹیل“ پر کسی کی ”ٹیل“ کھڑی ہو جائے تو اسے مختلف پھلوں پر مشتمل ”چاٹ“ کہہ لیں، ویسے اسے اچار بھی قرار دیا جا سکتا ہے جس میں بیشمار چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ بائی دی وے اچار جیسی بھرپور اور مکمل ڈش پوری دنیا میں کوئی نہیں گھاٹ گھاٹ کا پانی ہی نہیں پیا، مختلف ملکوں کے کھانے بھی کھائے لیکن اچار جیسا شہکار کسی قوم کو نصیب نہیں۔ درجنوں نہیں بیسیوں قسم کی سبزیاں، دالیں اور پھل اچار میں شامل ہوتے ہیں اور دنیا کی کوئی ڈش اتنی متنوع ہے نہ دیر پا۔ ابھی تو بہت سی چیزیں اس الہامی ڈش سے خارج ہو چکیں مثلاً کبھی کیکر کی پھلیاں بھی اچار میں ڈالی جاتی تھیں جنہیں جوڑوں کے درد کا بہترین علاج سمجھا جاتا۔ دیسی کیکر کو جب پھلیاں لگتی ہیں تو ان کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ پہلی سٹیج میں یہ بہت ہی نرم اور ”کولی“ ہوتی ہیں جنہیں سالن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، دوسرے مرحلہ میں جب یہ تھوڑی ”میچور“ ہو جاتی ہیں تو انہیں اچار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، تیسرے مرحلہ میں جب یہ پوری پک جائیں تو بکریوں کے لئے اعلیٰ ترین خوراک، میں ماضی پرستی کے شوق میں تقریباً ہر سال کیکر کی پھلیوں کا اچار تیار کراتا ہوں اور اسی لئے اپنے گھر میں دو بہت ہی خوبصورت کیکر بھی پال رکھے ہیں… بہرحال اب چلتے ہیں پہلے موضوع کی طرف اور وہ یہ کہ ہم کس ٹائپ کے لوگ ہیں؟ ہمارے ”اجزائے ترکیبی“ کیا ہیں؟ ہم کس قسم کی مٹی سے بنے ہیں؟ میں یہ خبر پڑھ کر حیران رہ گیا کہ ذوالفقار چیمہ جیسے پولیس افسر کے بطور آئی جی موٹر وے تبادلہ کی ”خوشخبری“ سن کر پاسپورٹ دفاتر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، کرپٹ مافیا نے اسلام آباد میں امیگریشن پاسپورٹ دفاتر میں مٹھائیاں تقسیم کیں اور جشن منایا۔ لعنت ہے ایسی تربیت پر کہ دیانت دار، ذمہ دار، فرض شناس اور ڈلیور کرنے والا باس وارے میں نہیں تو اس بگڑے ہوئے آوے کے آوے کو کون ٹھیک کر سکتا ہے۔ اس خبر کی اک ذیلی سرخی بھی ملاحظہ فرمائیں ”ارجنٹ فیس جمع کرانے والوں کو بھی 8 دن کی بجائے پھر سے ا یک ماہ کی تاریخ ملنا شروع ہو گئی۔“
دوسرے موضوع کا تعلق ”آئی ایم ایف“ کے ساتھ ہے کہ ہماری یہ ”کشکول توڑ حکومت“ کشکوک کو صبح، دوپہر، شام اچھی طرح مانجھ رہی ہے تاکہ ”باوقار“ طریقہ سے بھیک مانگ سکے۔ مجھے رہ رہ کر وہ انتخابی مہم یاد آ رہی ہے جس کے دوران میاں صاحب جگہ جگہ اور جلسہ جلسہ علامہ اقبال کا یہ شعر سنا کر بدنصیبوں کو خوامخواہ گرما رہے تھے۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
زمینی حقائق حملہ آور ہوں تو ساری شاعریاں اور بڑھکیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ ”پیٹ نہ پیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں۔“ بھوکے کو چاند بھی پراٹھے جیسا لگتا ہے۔ شاعر نے ٹھیک کہا:
”روٹی دا سوال اے جواب جیدا روٹی اے
وڈے وڈے لوکاں لئی ایہہ گل بڑی چھوٹی اے“
یہ نونیئے بیچارے تو نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ نپولین بونا پارٹ جیسے ملٹری جینئیس نے کہا تھا کہ ”فوجیں پیٹ کے بل چلتی ہیں۔“ بہتر (72) گھنٹے کا فاقہ ہو تو ساری کی ساری ”طائر لاہوتیاں“ اور ”پرواز میں کوتاہیاں“ وزارت خزانہ کے دفتر میں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں لیکن عوام کو ایکسپلائٹ کرنے سے باز کوئی نہیں آتا۔ نہ ڈرون بند، نہ مہنگائی بند، نہ لوڈ شیڈنگ بند نہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا کوئی ذکر فکر کہ یہ سب ٹرک کی وہ بتیاں تھیں جن کے پیچھے عوام ننگے پاؤں بھاگ اٹھے سو اب یہی سو چھتر اور سو پیاز ان کا بھاگ اور مقدر ٹھہرا۔ بھگتو اور دن رات بھگتو!
لکھ لکھ انگلیاں گھس گئیں کہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے خیر کی توقع رکھو گے تو رہ جاؤ گے کہ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹھے وٹے اور ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں پر جہالت کا پگھلا ہوا سیسہ کانوں میں ہو تو کون سنے گا؟ لیکن جنہیں ہو ”حکم اذاں“ وہ تو بتاتے رہیں گے کہ…
ہم وطنو! جیسے پیپلز پارٹی کی تھپڑ فیم وحیدہ شاہ اور ن لیگ کی طمانچہ فیم نگہت شیخ میں کوئی فرق نہیں، اسی طرح ان کی لیڈر شپ کی سوچ میں بھی کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا منشور ”جھوٹے وعدے“ حیرت ہے کہ سو سال سے قدیم اور Established ریلوے تو سنبھالی نہیں جا رہی، یہ بلٹ ٹرینیں چلانے چلے ہیں۔ نہ بجلی نہ گیس نہ پانی، اس منحوس میٹرو کی روانی دیکھو جو ہمارا تمہارا اربوں روپیہ سالا نہ کھا رہی ہے اور یہ بے سرا راگ ”ری مکسنگ“ کے بعد پھر سے شروع ہے کہ
”تھانہ کلچر بدلیں گے“
”پٹوار کلچر بدلیں گے“
جن کی سیاسی اساس ہی تھانیدار اور پٹوار ہو وہ کوئی خود کش بمبار ہیں جو اسے بدلیں گے؟
یہی وہ ہولناک اور حقیقی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر رچرڈ آرمیٹیج نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا کہ مستقبل قریب میں دنیا کے نقشے پر افغانستان تو بالکل دکھائی دیتا ہے لیکن پاکستان کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا تو اسے سب کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے لیکن غور و فکر کے لئے تو دماغ ضروری ہے۔
آپ دستار اتا ریں تو کوئی فیصلہ ہو
لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں
پیپلز پارٹی کی حکومت سے بھی تیز تر مہنگائی، ڈرون، لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری، بدامنی لوٹی ہوئی ملکی دولت کی واپسی، انڈین بجلی، ایرانی گیس، سعودی امداد، آئی ایم ایف کا قرضہ وغیرہ وغیرہ سب مبارک ہو۔
”دیکھو دیکھو کون آیا“
تازہ ترین