• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوری ملکوں میں سیاسی بحران سیاستدانوں کی بصیرت، معاملہ فہمی اور بالغ نظری کا حقیقی امتحان ہوتے ہیں، پانامہ لیکس پر پاکستان ہی نہیں، دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں بھی سیاسی ہلچل پیدا ہوئی۔ ایسے ہرملک میں اپوزیشن اور میڈیا نے برسراقتدار حکومتوں کے محاسبے کیلئے آواز اٹھائی۔ ایک دو حکمران مستعفی بھی ہوئے، بعض نے وضاحتیں پیش کرکے عوام کا غم و غصہ ٹھنڈا کیا، کچھ کے خلاف انکوائریاںشروع ہوئیں اور یوں بحران کے حل کیلئے سیاسی طور طریقے اختیار کرنے سے انتظامی، اقتصادی اور معاشرتی زندگی کے معمولات بتدریج بحال ہونے لگے مگر پاکستان میں اس معاملے کے حوالے سے ہرنیادن سیاسی عدم استحکام اور ہنگامہ خیزی میں اضافے کا پیغام لا رہا ہے۔ بیرون ملک آف شور کمپنیوں کے کاروبار میں وزیراعظم کے خاندان کا نام دیکھ کر پہلاپتھر تحریک انصاف نے پھینکااور شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کردیا۔ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ق اور بعض دوسری پارٹیاں بھی موقع کی مناسبت سے اس کے ہم رکاب ہو گئیں۔ وزیراعظم نے اپنے خاندان کے کاروباری معاملات کی وضاحت کی اور ساتھ ہی کمیشن کے قیام کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا مگر پھر کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس، پہلے شریف خاندان کے احتساب اور وزیراعظم کے استعفے کے مطالبات سامنے آگئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عدالتی کمیشن کے قیام اور اس کی تحقیقات شروع ہونے کا انتظار کئے بغیر حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے جلسوں، ریلیوں، پریس کانفرنسوں اور انفرادی بیانات میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے بڑھ چڑھ کر سیاسی سے زیادہ ذاتی حملے کئے جا رہے ہیں اور تہذیب و شائستگی کے اعلیٰ اصولوں کی جو کبھی ہماری معاشرت کا بنیادی طرہ امتیاز تھے، دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہرجلسے میں کارکنوں کو رائے ونڈ میں وزیراعظم کے ذاتی گھر پر یلغار کیلئے تیار ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں تو حکمران پارٹی کے ترجمان رائے ونڈ کا رخ کرنے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ابتدا میں وزیراعظم کے استعفے کی مخالفت کی اور کہا کہ پانامہ لیکس میں کرپشن کے حوالے سے جس جس کی نشاندہی ہوئی ہے اس کا احتساب ضرور ہونا چاہئے مگر ’’نظام‘‘ کو پٹری سے نہیں اترنا چاہئے۔ مگر اب کہہ رہی ہے کہ نوازشریف کے جانے سے نظام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، اس لئے وہ استعفا دے دیں، وزیراعظم نے اپنے خاندان کا احتساب سپریم کورٹ کے کمیشن پر چھوڑ دیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ چیف جسٹس عدالتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں اپنی صوابدید پر کوئی بھی تبدیلی کرسکتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ ایف بی آر اور سٹیٹ بنک نے کمیشن کی مدد کیلئے تیاریاں کر لی ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں غیرجانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے معاملے کو یکسو کرنے سے زیادہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس طرح کے حالات غیرجمہوری قوتوں کیلئے زیادہ سازگار ہوتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں پیر کی شام پانامہ لیکس اور دوسرے امور پر مشترکہ لائحہ عمل پر غور کیلئے اپنا اجلاس منعقد کررہی ہیں۔ یہ تو اجلاس کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ انہوں نے حکومت سے محاذآرائی بڑھانے کا راستہ چنا ہے یا افہام و تفہیم سے متنازعہ معاملات کے حل کا۔ لیکن قومی مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ سیاسی معاملات سیاسی طریقوں ہی سے حل کریں اور ڈائیلاگ اس حوالے سے سب سے موثر طریقہ ہے۔ چاہے یہ حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے ہو یا پارلیمنٹ کے منتخب فورم پربحث و تمحیص سے۔ دوسرا راستہ ہنگامہ خیزی کے ذریعے عدم استحکام کا ہے جس سے سیاستدانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ ملک کو نقصان پہنچے گا۔ اس معاملے میں زیادہ ذمہ داری حکومت کی ہی بنتی ہے کہ وہ حالات کو محاذآرائی کی طرف جانے سے روکے اور اپنا لہجہ دھیما کرے۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو عدالتی کمیشن اسی کا مطالبہ تھا۔ اب وہ عدالتی کمیشن کی تحقیقات کا انتظار کرے۔
تازہ ترین