• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ گھمبیر ملکی صورت حال میں عمران خان پاکستانی قومی سیاست کا بڑا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ ان کی دیانت اور پاکستانیت کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے اپنی چند مینج ایبل شخصی کمزوریوں کے سواعمران میں کوئی احساس کمتری ہے نہ احساس برتری ۔ وہ کھری اور سیدھی شخصیت کا مالک ہے ۔ اس کی سنجیدگی اور مسکراہٹ کا توازن بھی خوب ہے ۔ و ہ جذباتی بھی ہے اور صابر بھی ۔ تاہم مردم شناسی کی کمی نے خاں صاحب کو بہت نقصان پہنچایا ۔ پاکستانی معاشرے کے حوالے سے سٹریٹ وزڈم کم ہونے کے باجود عالمی معاشرے ، مغربی ،حکومتی و معاشرتی ذہن اورقومی زندگی کا عمران کا ویژن ( جو ہماری قیادت کی بڑی مطلوب ضرورت ہے ) پاکستانی سیاست دانوں کی موجودہ لاٹ میں سب سے زیادہ ہے ۔
مستقبل کی اہم ترین پاکستانی سیاسی شخصیت کا یہ تجزیہ ان کے نو منتخب قومی اسمبلی کے پہلے خطاب کے تناظر میں کیا گیا ہے ۔ خان اعظم کا یہ خطاب اکثریت کے لئے چونکا دینے والا تھا ۔ کیونکہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ بہت دھوا ں دار تقریر کریں گے اور بڑی شدت سے حکومت پر برسیں گے ۔ اندازے کی بنیاد عمران خان کے نذدیک انتخابات میں منظم دھاندلی تھی ۔ خیال تھا کہ ایوان میں پہلی تقریر میں اسی کا غلبہ ہو گا۔ سیاسی ابلاغ اور حکومتی اقدام وہ موثر اور نتیجہ خیز ہو تاہے ، جو صورت حال ( Situational Factor)کے مطابق ہو ۔ خیر پختو نخوا اور بلوچستان میں بے قابو دہشگردی کے واقعات نے ''قومی اتحاد''کو پاکستان کی سب سے بڑی اور فوری قومی ضرورت بنا دیا ہے۔ عمران نے اپنے 45منٹ کے خطاب میں ثابت کر دیا کہ قوم اور ایوان کو اس قومی ضرورت کا احساس دلانا اور اس ہدف کے حصول میں اپنے دامے درمے سخنے تعاون کی یقین دہانی ، اس نازک وقت میں حکومت کی اپوزیشن سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ سو ، ان کی تقریر میں اسی ضرورت کو واضح اورپوری کر نے کی عملی تدبیر کا غلبہ رہا ۔ عمران کے قومی احساسات سے بھرے اس ابلاغ نے ثابت کر دیا کہ وہ حالات کا گہرا شعور رکھنے والے مکمل ذمہ دار اور متوازن سیاست دان ہیں ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ن لیگی ابلاغی معاونین میں سے کچھ تو عمران خان کی خلاف توقع تقریر پر بغلیں بجا رہے ہیں اور کچھ نے صرف سکھ کا سانس لے کر اس پر گہرے اطمینان کا اظہار تو کیا ، لیکن اپنے رنگ کی لچھ دار لفاظی سے اب خا ن کے سیاسی بالغ ہونے کی پھبتی بھی کسی ۔انہوں نے جیسے تحریک انصاف کارکنوں کو بھڑکایا یا چڑایا کہ تمہار اقائد تمہاری توقع پر پورا نہیں اترا،حالانکہ سیاسی پنڈتوں کی اپنی پیش گوئیاں لیکن تحریک کے کارکنوں میں تو ہر گز کوئی ایسی خواہش موجود نہیں تھی کہ ان کا لیڈر ان ملکی حالات میں بھی اسمبلی میں اپنے پہلے اجلاس میں ہی فقط حکومت پر برسے گا ۔
اب ذرا وزیر اعظم نواز شریف کی گڈ گورننس کی جانب پیش رفت پر اظہار اطمینان ۔ فقیر نے اپنے کالم ''ا ی گورننس ، وزیر اعظم کے ارادوں کا امتحان ''(مطبوعہ 13جون )میں واضح کیا تھا کہ ملک کے قابل برداشت مالی وسائل ، مطلوب دستیاب ٹیکنالوجی ، مہارت او ر ورک فورس کی موجودگی میں گڈ گورننس کو یقینی طور پر ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس صدامیں عملی تجاویز بھی پیش کی گئیں ۔ تفصیلاً واضح کیا گیا کہ یہ عوام کے لیے کتنا بڑا ریلیف ہو گا ۔ اسے اختیار کر نے سے ملکی معیشت کو جدید اور گورننس کو بہتر بنانے میں کتنی مدد ملے گی ۔یہ بھی واضح کیا کہ اس اعتبار سے ای گورننس کا ملک میں اجراء میاں صاحب کی نیت کا ٹیسٹ ہے ۔ فقیر نے یہ دھمکی بھی دی کہ وہ کم از کم حکمرانوں کے کان پر جوں رینگنے تک ای گورننس کی صدالگا تا رہے گا۔ اللہ خوش رکھے ہمارے وزیر اعظم صاحب نے جمعرات کو اپنے آفس میں ای گورننس کے یک نکاتی ایجنڈے پر ایک اعلی سطحی اجلاس بلایا ۔ یہ معمول کے شیڈول میں تھا یا فقیر کی صدا میاں صاحب کے کانوں تک پہنچ گئی اور اس پر پیش رفت بھی ہوئی ، ہردو صورتوں میں وزیر اعظم کا یہ اقدام تحسین کا مستحق ہے ۔ بہت اطمینان بخش امر یہ ہے کہ ، وزیر اعظم نے ای گورننس کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہو ئے کہا کہ''ٹیکنالوجی کے استعمال اور ای گورننس اپنانے سے ہم بے روز گاری پر قابو پاسکتے ہیں ، استعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ شفافیت اور جواب دہی کو فروغ دے سکتے ہیں جو بہتر طرز حکمرانی کا خاصہ ہیں ''۔ یہی کچھ خاکسار کے متذکرہ کالم کاباٹم لائن تھا ۔ وزیر اعظم کے ای گورننس پر بلائے گئے اجلاس میں انفار میشن ٹیکنالوجی کی وزیر مملکت محترمہ انوشہ رحمن نے یہ مایو س کن انکشا ف کیا کہ پاکستان ای گورننس کی عالمی درجہ بندی میں 156ویں نمبر پرہے ، حالانکہ ترقی پزیردنیا میں پاکستان کا آئی ٹی میں ایکسپوژر بلند درجے پر ہے ۔ لیکن یہ ہماری بیڈ گورننس ہے کہ اس کے استعمال میں سماجی تعلقات ، تفریح او ر وقت گزاری کے مقاصد کا غلبہ ہے ۔ جیسے ہمارے سب سے بڑے دریا کا پانی بس بہے چلا جا رہا ہے ، نہ اس سے پوری کاشت کاری ہو رہی ہے نہ بجلی کا حصول ۔اجلاس کے حوالے سے ایک اطمینان بخش امر یہ ہے کہ وزیر اعظم نے پاکستان میں ای گورننس میں حائل رکاوٹ کی صحیح نشاندہی ( لیکن ذرا لو پروفائل میں ) اس آبزرویشن سے کر دی کہ '' ای گورننس اپنانے کے لیے سرکاری شعبے میں کام کر نے والوں کے ذہنوں میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے''۔ اس کا دوسرا مطلب ہے کہ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم سے تیار ہونے والے بڑے چھوٹے بابوؤ ں کی فوج ظفر موج کا رویہ ای گورننس کو آسانی سے قبول نہیں کرے گا ، کیونکہ اس میں ان کے گہرے ناجائز مفادات ہیں ۔ لہٰذا وہ اسے ناکام بھی بناسکتے ہیں ۔ خاکسار نے اپنی صدا میں بابوؤں کے اس اجتماعی رویے کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے ۔ اب اس کا حل پیش ہے کہ ، پہلے قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ ترقی یافتہ ملکوں کی جدید تاریخ بتاتی ہے کہ جب بیمار رویے جدت کو اختیار کر نے میں ڈریگن کی طرح حائل ہو گئے تو اس بلا کو قانون سازی کر کے ہی راہ سے ہٹایا گیا ۔ آئین نو عوام کا استحصال اور انصاف کا خون کر نے والے نظام کے لیے خطرہ بن جائے تو اس کا موثر علاج مطلوبہ قانون سازی اور اس کا یکساں اطلاق ہی ہے ۔ یہ ایک جمہوری معاشرے میں آسان تر لیکن ہمارے ہاں محال ہے ۔ سوال پید اہو تاہے کیا ہم واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ؟ مالی رکاوٹ تو کوئی نہیں کہ اگر ہر محکمہ اور شعبہ اپنے بجٹ کا قانوناً 5فیصد بھی ا ی گورننس کے لیے وقف کر دے تو انتظامی اخراجات کم ہونگے ، سب سے بڑھ کر کرپشن کی بیخ کنی سے جو بھاری رقم بچے گی اور ای گورننس اختیار کر نے کا بڑا منافع ہوگا۔اس سے عوا م کے لیے جو آسانیاں پید ا ہوں گی وہ بڑی سیاسی کمائی ہوگی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب اس سودے میں کیا کماتے یا کھوتے ہیں ۔ شرط اول نیک نیتی اور جرات مندی ہے ۔ فقیر تو یہی کہے گا ذرااور ۔ میاں صاحب ہمت کیجئے ۔ بابوؤں کے رویئے بدلنے کے لیے قانون سازی کیجئے جس میں تحریک انصاف کو بھی آپ کی حمایت کرنا پڑے گی اور دوسرے پارلیمانی گروپس کو بھی ۔ کرپشن سے داغدار پی پی بھی اس کی مخالفت میں ایک لفظ نہ کہہ سکے گی ۔
تازہ ترین