• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل وہ مر گیا۔ ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے، کہتا ہوا کھمبے پر چڑھا اور بجلی کی تاروں سے جھول گیا۔ 2 گھنٹے سے زائد اس کی لاش ننگی تاروں سے لپٹی رہی۔ ان ننگی تاروں نے اسے شاید وہ سکون دے دیا جو اس ملک، اس زمین اور اس دھرتی نے اسے نہیں دیا۔ وہ صرف 18برس کا تھا۔ ایک ریڑھی فروش، سبزیاں بیچنے والا۔ میں آنکھیں بند کر کے جب اس کی تصویر ذہن میں لاتا ہوں تو 18 برس کے ایک کھلکھلاتے نوجوان کی تصویر ہی ذہن میں آتی ہے۔ امیدوں سے بھرے، آنکھوں میں خواب لئے ، اس دنیا میں کچھ کرنے کے سپنے دیکھنے والے نوجوان کی شکل۔ اس عمر میں آدمی ایسا ہی ہوتا ہے، اس عمر میں نوجوانوں کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ خواب دیکھنے چاہئیں، امید رکھنی چاہئے، محبت کرنی چاہئے۔ مگر شاید اس کی تمام امیدیں، تمام خواب ٹوٹ کر بکھر گئے۔ خواب ٹوٹتے ہیں تو ان کی کرچیاں آنکھوں سے خون رلاتی ہیں۔ ایسی موت کہ جس میں زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہے، کو کیا ہم خود کشی کہیں گے؟ ایسی موت کہ جس میں دنیا، حکومت، لوگ، آس پاس کے انسان سب ملکر ایک شخص کو ایسے کنوئیں کی طرف دھکیل رہے ہوں کہ اس کے پاس اس میں گرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو، کو خودکشی نہیں قتل کہا جانا چاہئے۔ ایسا قتل کہ جس میں میں ، آپ اور ہماری حکومت سب برابر کے شریک ہیں۔ اس وقت روز اخبارات میں چھپنے والی خبروں پر اگر نظر ڈالی جائے تو میں، آپ اور ہماری حکومت روز اس طرح کے آٹھ دس قتل کرتے رہتے ہیں۔ جو مر جاتے ہیں وہ بچ جاتے ہیں اور جو زندہ ہیں ان کی زندگی موت سے بدتر ہے۔ ایسے ملک میں جہاں مہنگائی کی شرح بڑھتی جا رہی ہو، قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرتی ہوں، سکون نام کی کوئی شے میسر نہ ہو، روزگار مشکل سے مشکل ہوتا چلا جائے اور آمدن کم سے کم۔ ایسے میں اگر لوگ خود کشیاں نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے؟ ذرا تصور کیجئے ایک ماں جب اپنے 3یا4چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر کسی ٹرین کے نیچے لیٹ جاتی ہے یا کسی دریا میں چھلانگ لگادیتی ہے تو آخری وقت تک وہ کیا سوچ رہی ہوتی ہوگی۔ مرتے ہوئے اس کے ذہن میں بھی شاید یہی سوال اٹھتا ہو کہ کیا ایسی زندگی سے موت بہتر نہیں ہے؟ اس کاذہن یقینا اسے یہی جواب دیتا ہوگا کہ ہاں ایسی زندگی سے موت ہی بہتر ہے ۔ دنیا، زندگی ،لوگ اس کو انصاف دینے میں فیل ہوجاتے ہیں اور انصاف کا خاتمہ امید کا خاتمہ ہے۔ امید کا خاتمہ زندگی کا خاتمہ ہے۔ ایسے میں اگر اٹھارہ برس کا نوجوان اپنے خوابوں کے ٹوٹنے پر اپنی امیدوں کے ختم ہونے پر تاروں سے جھول جاتا ہے تو یقینا ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد ایسا کرتا ہے۔ یقین مانیئے جب سے میں نے اس نوجوان کی خبر پڑھی ہے مجھے کسی پل چین نہیں آرہا۔ اسی طرح کی بے چینی مجھے ان14نوجوان بچیوں کے بارے میں جان کر ہوئی کہ جب میں نے یہ پڑھا کہ کسی شقی قلب نے میری14بیٹیوں کو شہید کردیا ،وہ بھی اسی ہی عمر کی رہی ہوں گی۔18برس یا اس سے شاید کچھ کم۔ ایسے مشکل حالات میں ان کا جذبہ کہ علم حاصل کرنا ہے، لائق ستائش ہے لیکن جس نے ان کے خواب بکھیر دئیے۔ ان کے ساتھ ساتھ ایسی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والی بے شمار بچیوں کے ارمانوں کا خون کردیاکہ ماں باپ شاید اپنی بچیوں کو ایسے علاقوں میں سکول کالج بھیجنے سے کترانے لگیں کہ جہاں ایسے خون ہوتے ہیں۔ ان کو مارے والے بھی شاید اتنی ہی عمر کے لوگ ہوں گے جن کو نجانے کیسے بھیانک سپنوں میں الجھایا گیا ہے ۔ایسی ہی عمر کے کسی نوجوان نے پشاور کے علاقے چمکنی میں واقع حسینیہ مدرسے میں خود کو ا ڑا کے 15نوجوان شہید کردئیے۔ ہم کس کس کا ماتم کریں،دل خون کے آنسو روتا ہے، کس کس کو مجرم ٹھہرائیں کس کس کے نام لے کر بین کریں، یہ کون لوگ ہیں جن کے نزدیک انسانی خون کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ان کی مذمت میں جتنا بھی کہا جائے کم ہے۔
اور وہ جنہوں نے ہمارے قائد اعظم کی آخری رہائش گاہ کو بم سے اڑا دیا وہ جنہوں نے ان کے استعمال کی اشیاء کو مٹی میں ملادیا۔ ان کا کیا کیجئے، مجھے اب بھی یاد ہے بہت پہلے میں جب زیارت گیا تو اسی شوق میں کہ اپنے قائد کے استعمال میں رہنے والی اشیاء کو دیکھ کر کچھ گھڑی خوشی کا سامان کریں گے۔ ایک ایک کمرے سے قائد کی خوشبو آتی تھی۔ ان کی تصاویر، ان کے استعمال میں رہنے والا پلنگ، اس پر بچھی چادریں، ڈاکٹر الٰہی بخش کا کمرہ، محترمہ فاطمہ جناح کا کمرہ اور ان کے استعمال کی چیزیں، ڈرائنگ روم، باتھ روم، ہر چیز میں قائد اعظم کی یاد بسی تھی۔ اس عمارت کو مٹانے سے اگر کوئی یہ سمجھے کہ قائد اعظم کا نام بلوچستان سے ختم ہو جائے گا تو شاید شدید غلط فہمی کا شکار ہے۔افسوس تو ہے اکرم شاہ کا کٹرجیسے لوگوں پر کہ جنہوں نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو مبرا کرنے کی کوشش کی کہ انگریز دور کی ایک نشانی کو مٹادیا گیا ۔میں وجاہت مسعود سے متفق ہوں کہ اگر انگریز دور کی نشانیوں کو ختم کرنا ہے تو پھر اس دور کے بچھائے ریلوے ٹریک، گورنر ہاؤس وغیرہ کو بھی ختم کردینا چاہئے۔ اس دور کے خطاب اور جاگیریں جن نوابوں کو انگریز کی خدمت کے بدلے ملیں اس کا بھی کچھ کیا جانا چاہئے ۔قائد اعظم پاکستان کے عوام کے لئے وہ علامت ہیں کہ جسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ اس طرح کے بمبار بھی نہیں، اس سے انہوں نے اپنے لئے تو گڑھا کھودا ہے لیکن وہ نوجوان جو قائد اعظم کے بارے میں پڑھ کر خواب دیکھتے ہیں، اپنے ملک کو سنورانے کے ان خوابوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور آخر میں حسینیہ مسجد کے شہداء کی یاد میں ایک نظم۔
خیر مانگتے دو ہاتھ…گرم خون میں ڈوبے
جانماز کے ٹکڑے جھاڑیوں میں ہیں اٹکے
ایک بے دھڑا لاشہ…اب تلک ہے سجدے میں
نور سے جو عاری ہیں…ایسی خواب آنکھوں میں
اک جوان چہرے پر…اک سوال پھیلاہے
کون ایسے عالم میں…مسجدوں کے صحنوں میں
اپنے رب کو ڈھونڈے گا
تازہ ترین