ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں گورنمنٹ کالج سے وابستہ احباب کو شاید وہ لمبا تڑنگا گورا چٹا اور شوخ و شنگ سا لڑکا یاد ہو جو کرشن نگر سے اس دھج سے سائیکل پر کالج آیا کرتا تھا کہ مڈ گارڈ پر پاکستانی فلیگ لگا ہوتا تھا۔ نام تو اس کا کچھ اورتھا مگر دلیر خان کے عرف سے پہچانا جاتا تھا اور تو اس میں مجھے کوئی خاص دلیری نظر نہیں آئی مگر ہرکہیں اپنی جگہ بنانے میں بے مثل تھا۔ بن بلائے کسی بھی تقریب کے خاص مہمانوں میں شامل ہو جانا موصوف کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ کسی ناواقف کی بھی شادی میں جاتے تو اسی کی کار میں سفر کرتے اور لڑکی اور لڑکے والے آخر تک اسے کوئی انتہائی اہم مہمان سمجھتے۔ غمی کی مجالس میں تو خیر اس کی اسپیشلائزیشن تھی۔ جنازے سے لیکر سوئم بلکہ بعض جگہوں پر چہلم تک کچھ اس دل گرفتگی سے شامل رہتے کہ تعزیت کیلئے آنے والے مرحوم کی اولاد کو چھوڑ کر انہیں پرسہ دیتے تھے۔ ایوب خان کے آخری دنوں میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنا تو کسی نے کہہ دیا کہ اتحاد کی میٹنگ اٹینڈ کر کے آؤ تو مانیں گے۔ موصوف نے جھٹ سے کلف زدہ کرتا شلوار نکالی اور واسکٹ زیب تن کرکے سیاسی لیڈروں کی میٹنگ میں جا بیٹھے اور اتحاد کی مضبوطی کیلئے کچھ تجاویز بھی پیش کر دیں۔ کسی کو شک تک نہ گزرا کہ یہ کوئی غیر متعلقہ شخص ہے۔ موصوف کو خطرناک ترین چیلنج اس وقت درپیش ہوا جب دوستوں نے اسے گورنر موسیٰ کی کیبنٹ میٹنگ اٹینڈ کرنے کا ٹاسک دیا۔ معاملہ سیریس تھا مگر دلیر خان پیچھے ہٹ جاتا تو نام کو بٹہ لگتا۔ اس مہم کے لئے دلیر خان نے جو اسٹریٹجی اختیار کی وہ اس کی ذہانت اور منصوبہ بندی کی معراج تھی۔موصوف نے پہلے تو کیبنٹ میٹنگز اور اس میں شرکت کرنے والوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں پھر اس صبح وہ سفاری سوٹ پہنے، فلیگ لگے کورے کاغذوں کی فائل بغل میں دبائے سیکرٹریٹ میں ایک دفتر کے سامنے پریشان کھڑا تھا۔ ون یونٹ کا زمانہ تھا، ایک سندھی وزیر پاس سے گزرے تو بولا، سر میرا خیال ہے آپ میٹنگ کے لئے گورنر ہاؤس تشریف لے جا رہے ہیں، مجھے بھی اپنے منسٹر صاحب کے ساتھ جانا تھا وہ تو نکل گئے، آپ مہربانی فرما کر مجھے ہمراہ لے چلیں گے؟ کیوں نہیں، آئیے تشریف لائیں اوراگلے ہی لمحے دلیر خان جھنڈے والی کار کی فرنٹ سیٹ پر براجمان تھا۔ بھلا وزیر اور اس کے فائل بردار ساتھی کو کس نے روکنا تھا۔ پچھلی صف میں دیگر محکموں کے فائل بردار اسٹاف کے ساتھ جا بیٹھا اور پوری کارروائی کے دوران انتہائی انہماک کے ساتھ نوٹس لیتا رہا۔
دلیر خان کے اس غیر سنجیدہ رویّے پر اساتذہ اکثر فہمائش کرتے رہتے تھے۔ ہمیشہ سنجیدگی سے جواب دیتا۔ سر! آپ کو رزلٹ چاہئے نا، دیکھنا یونیورسٹی میں ٹاپ کروں گا۔ پرنسپل ، پروفیسر اشفاق علی خان نے بھی ڈانٹا کہ تم پرائمری میں نہیں پڑھتے کہ سائیکل پر جھنڈا لگائے پھرتے ہو، کھلنڈرا پن چھوڑو اور سنجیدہ رویہ اپناؤ۔ دلیر خان کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ۔ بولا، سر اس چار گرہ سبز و سفید کپڑے سے مجھے عشق ہے۔ آج سائیکل پر ہے تو کل گاڑی پرہوگا۔ ہمارا یہ ہر فن مولا دوست سیاست کے لئے ایک بہت ہی فٹ کیس تھا اور سمت کا تعین بھی کر چکا تھا مگر حالات و واقعات کی ترتیب گڑبڑ ہو گئی اور وہ ماسٹرز مکمل کرنے سے پہلے ہی مغرب کو پیارا ہو گیا تھا۔ اوّل اوّل کینیڈا گیا، وہاں دل نہ لگا تو امریکہ چلا آیا، وہاں بھی دال نہ گلی تو اگلی منزل برطانیہ تھی۔ ایک بات ضرور تھی کہ وہ جہاں بھی گیا سیاست کو نہیں بھولا اور اس سبق کا بھی بڑا پکا تھا کہ راہ و رسم ہمیشہ اقتدار کے ساتھ رکھ۔ کینیڈا، برطانیہ، امریکہ تینوں جگہیں اہم تھیں اور مقتدر لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ دلیر خان اپنے ایجنڈے پر کام کرتا رہا۔ شروع میں تو کچھ زیادہ بات نہ بن سکی کہ مالی کمزوری مانع تھی مگر برطانیہ میں کاروبار جم گیا اور پیسے دھیلے کی کمی نہ رہی تو دلیر خان ایک لحاظ سے چھا گیا۔ پرویز مشرف کے سواگت کیلئے چندے کی اپیل ہوئی کہ سب شیدائی، فدائی سوسو پونڈ عطیہ کریں۔ دلیر خان کا نعرہ مستانہ ابھرا، کیا ہلکی باتیں کرتے ہو۔ 20 ہزار پونڈ کا اندازہ ہے نا۔ یہ رہا چیک۔ ظاہر ہے اس کے بعد استقبالیہ میں پرویز مشرف کے دائیں جانب بیٹھنے کا استحقاق کسی اور کو کیونکر مل سکتا تھا۔ بس پہلی ملاقات ہی مشکل تھی۔ اس کے بعد سلسلہ چل نکلا۔ 2002ء میں انتخابات کا طبل بجا تو موصوف نے بھی اظہار تمنا کر دیا۔ مزید ایکشن کیلئے چوہدریوں کے حوالے ہوا۔ آبائی حلقہ سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی مل گیا مگر کامیابی مقدر میں نہ تھی۔ بارگاہ عالی سے اشارہ ہوا کہ پنجاب والوں کو دوبارہ جا کر ملو، دال دلیا ہو جائے گا۔ مشیر اور خصوصی معاون بھی تو ہوتے ہیں۔ موصوف بھاگے بھاگے والی پنجاب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑی لجاجت سے کہا مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔ دفتر نہ گھر، عملہ نہ تنخواہ اورنہ ہی کوئی محکمہ۔ یہ سب اپنے پاس رکھیں۔ مجھے صرف ایک جھنڈا عطا کر دیجئے، گاڑی بھی اپنی خرید لوں گا۔
اور پھر موصوف جھنڈے والی گاڑی پر سب سے پہلے اپنے گاؤں گئے تھے اور دوسرا کام یہ کیا کہ گھر کے صحن میں لوہے کے ایک بلند پول پر بڑا سا قومی پرچم لہرانے کا اہتمام کیا ۔ واقعہ کو یادگار بنانے کے لئے علاقہ بھر کے معززین کی دعوت بھی کی ۔ گل پاشی کے لئے ٹوکروں کے حساب سے پھول آئے تھے۔ نیم پلیٹ کے لئے کوئی مناسب جگہ نہ تھی۔ سو نیا گیٹ لگوایا گیا تاکہ نو تعمیر پلر پر چوہدری ، صوبائی وزیر کی تختی لگائی جا سکے۔ یہ ہلا گلا چند دنوں تک چلتا رہا کہ ”وزیر صاحب“ کو ایک صبح اطلاع ملی کہ ان کا نام تو کیبنٹ میں شامل ہی نہیں اور وہ یہ سب کس حیثیت سے کر رہے ہیں؟ شنید ہے کہ اس دوران بارگاہ عالی نے دست شفقت کسی اور تگڑی آسامی پر رکھ دیا تھا، دلیر خان سخت دل برداشتہ ہوا پھر سے امریکہ جا بسا۔ بوسٹن کے نواح میں ایک چھوٹی سی بستی، دو کمروں کا گھر جس میں ایک اس کے آفس کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ میز پر دھری اشیاء میں پاکستانی جھنڈا سب سے نمایاں تھا۔ 2008ء میں راقم وہیں اس کا مہمان ہوا تھا۔ کچھ اکھڑا اکھڑا سا تھا۔ بولا، شاہ جی! ہمیں تو اس چارگرہ کپڑے سے عشق ہے۔ یہاں تو اسے میری میز سے کوئی نہیں اٹھا سکتا۔ یہ افسوسناک انکشاف بھی ہوا کہ کینسر حملہ آور ہو چکا اور پھر خبر آئی کہ ہمارا دلیر خان اللہ کو پیارا ہو گیا اور واحد وصیت یہ تھی کہ اس کی میت کو پاکستانی جھنڈے میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جائے جس کا مقامی کمیونٹی نے پورا احترام کیا ۔
حالیہ انتخابات کے بعد وطن عزیز میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی کلچر کو دیکھتا ہوں تو دلیر خان پر افسوس ہوتا ہے کہ مرحوم وقت سے ذرا پہلے پیدا ہوگئے تھے۔ جس چار گرہ سبز و سفید کپڑے نے اسے زندگی بھر باؤلا بنائے رکھا، 2013ء کے وزیروں کی زندگیوں سے خارج ہوگیا۔ جو اب گاڑیوں اور گھروں پر قومی پرچم کی نمائش نہیں کرسکتے، وزارتوں سے محروم رہ جانے والے ارکان اسمبلی شروع میں بدمزہ ضرور ہوئے تھے مگر جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے، سنبھل ہی نہیں رہے، الٹے خوش بھی ہورہے ہیں کہ کیبنٹ منسٹر ہونے سے بچ گئے۔ اپنی نیند جاگتے ہیں، اپنی سوتے ہیں۔ جو جی چاہتا ہے کرتے ہیں اور جدھر من میں آتاہے، منہ اٹھا کر چل پڑتے ہیں کیونکہ یہ وہ وزارتیں نہیں جن کے لئے سفارشیں ڈھونڈی جاتی تھیں۔ اب تو وہ وقت آگیا ہے کہ یار لوگ رستگاری کے لئے حیلے تراشیں گے۔ آغاز شاید ہو بھی چکا۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد پر عوامی دباؤ کچھ اس انداز سے پڑا ہے کہ موصوف وزارت سے الگ ہونے کی پیشکش کرچکے۔ اہداف کا تعین، کارکردگی کا ہوّا،مسلسل مانیٹرنگ ، اور اوپر سے میاں صاحبان کی شیر کی آنکھ ان سب نے مل ملا کر کم از کم مرکز اور پنجاب کی حد تک تو وزراء کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ سبز، پیلے اور سرخ کارڈز اس پر مستزاد ۔ مسلسل دو سرخ کارڈ وصول کرنے والے وزیر کیلئے منصب بچانا مشکل ہوجائے گا۔ بے حد دلچسپ، گویا کیبنٹ منسٹر نہ ہوئے ہاکی کے کھلاڑی ہوگئے۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ اس وقت پاکستان کو وزارتوں کی نہیں دیوانوں کی ضرورت ہے۔ سو چند درجن دیوانوں نے چیلنج قبول کرلیا ہے اور دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ مگر وہ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کارکردگی کی تلوار انہی کی گردن پر کیوں؟ سبز، پیلے اور سرخ کارڈ انہی کا مقدر کیوں؟ بیوروکریسی اس میں شامل کیوں نہیں؟ اور کارکردگی نہ دکھانے والے افسروں کو گھر کی راہ دکھانے میں کیا شے مانع ہے؟