• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ عام سے قامت اور قد، نین نقش کا اجنبی سا لڑکا

جو میرے بابا سے کہہ رہا تھا

نہیں نہیں، مَیں خیال رکھوں گا

وعدہ کرتا ہوں

ہوسکے گا جو، سب کروں گا

مَیں دھوپ میں سایا، ابر بن کر کھڑا رہوں گا

مَیں راہ کے خار اپنی انگشت سے چُنوں گا

وہ عام سے قامت اور قد، نین نقش کا اجنبی سا لڑکا

میرا رفیقِ سفر بناتھا

مَیں سُرخ جوڑے میں اس کے پہلو میں چُپ کھڑی تھی

مَیں خوشبوؤں کی ردا میں لپٹی ڈری ڈری تھی

سنبھالے خوابوں کی پوٹلی کو

نئے سفر کی مسافتوں سے نمٹ رہی تھی

عجب سفر تھا

خوشی کے پودوں کے سبز پتّے

خزاں رُتوں کا لباس پہنے شجر سے بچھڑے ہوئے پڑے تھے

میری حفاظت کی سب فصیلوں میں اتنے سوراخ ہوگئے تھے

کہ تیر آ آ کے لگ رہے تھے

کوئی تو جائے پناہ ہوتی

نہ میری ہستی تباہ ہوتی

وہ سایۂ ابر کھو چُکا تھا

کہ میرے آنگن میں دھوپ کا پیڑ اُگ گیا تھا

وہ خواب راتیں، عذاب راتوں میں ڈھل گئ تھیں

وہ سرد لہجہ میری سماعت میں بس گیا تھا

تمہارے بابا نے کیا دیا ہے

تمہاری صُورت میں کیا رکھا ہے

تمہارے جیسی ہزاروں اب بھی

میرے اشارے کی منتظر ہیں

مَیں تپتے صحرا میں جل رہی تھی

پیاس میری بھڑک اٹھی تھی

ندی کی آغوش ہی بچی تھی

ندی کے پانی میں زرد اُبٹن گھلا ہوا تھا

جو آنسوؤں سے گُندھا ہوا تھا

نہ جانے کس کس سے کہہ رہا تھا

کوئی تو ایسا طریق ڈھونڈو

تمہارے آنگن میں اُڑتی چڑیا

ندی کے پانی میں غسلِ میّت نہ کرنے پائے

تازہ ترین