• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر میدانِ جنگ بنا اور وہاں تقریباً دو ہفتے موت کا وحشیانہ رقص جاری رہا۔ بے گناہ فلسطینی شہری ہلاک ہوتے رہے اور شہر کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔اسرائیل کی وحشیانہ بم باری سے دوسو پچاس سے زاید فلسطنی شہید ہوئے، جن میں 20 خواتین اور 61 بچّے بھی شامل تھے، جب کہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں رہی۔ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے زاید شہری بے گھر ہوئے۔بے بس شہری، جن کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، امن کی راہ ہی تکتے رہ گئے۔یہ چھوٹی جنگ یا بڑی فوجی جھڑپ اسرائیل اور فلسطینی جماعت حماس کے درمیان رمضان کے آخری دِنوں میں شروع ہوئی اور عید کے پورے ہفتے جاری رہی۔

اسرائیل نے حسبِ سابق اپنی طاقت کا بے رحمانہ استعمال کیا اور رات دن بم باری کر کے غزہ شہر کو 2014 ء کے بعد ایک مرتبہ پھر کھنڈر میں تبدیل کردیا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ حماس کی جانب سے دو ہزار سے زاید راکٹ داغے گئے، جس کے نتیجے میں 10 اسرئیلی ہلاک ہوئے، لیکن زیادہ تر راکٹ اُس کے آئرن ڈوم دفاعی نظام نے گرنے سے پہلے ہی تباہ کر دیے۔ان خون ریز واقعات کے دَوران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کا تین مرتبہ اجلاس ہوا، لیکن وہ جنگ بندی میں کام یاب نہ ہوسکی۔اس کی بنیادی وجہ اسرائیل کی ڈھٹائی اور امریکا کا قرارداد پر متفّق نہ ہونا تھا، جس کے پاس ویٹو پاور ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین، روس اور دوسری بڑی طاقتیں بھی زبانی کلامی باتوں سے آگے نہ بڑھیں۔

اُنھوں نے کسی بھی عملی کارروائی سے گریز کیا۔یوں پابندیاں تو دُور کی بات، اسرائیل کے خلاف مذمّتی قرارداد تک منظور نہ ہوسکی۔دوسری طرف، اسلامی ممالک کی تنظیم، او آئی سی نے ایک سخت قرار داد کے ذریعے اس سارے المیے کا ذمّے دار اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے فوری سیز فائر کا مطالبہ کیا۔پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔اِس ضمن میں دوباتیں غور طلب ہیں۔ جنگ کے دَوران امریکا نے ایک مرتبہ پھر کُھل کر اسرائیل کی حمایت کی اور صدر جوبائیڈن نے اُس کے دفاع کے حق کی پُرزور حمایت کی۔ گو بعد میں اُنہوں نے جنگ بندی کی بات بھی کی۔

دوسری بات یہ کہ بڑی طاقتوں میں سے کوئی بھی اسرائیل کے خلاف کُھل کر سامنے نہ آیا، کیوں کہ برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے اسرائیل سے قریبی تعلقات ہیں۔ یہ خون ریزی کیوں ہوئی؟ اس کے مشرقِ وسطیٰ پر کیا اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔نیز، یہ بھی کہ اِس تنازعے میں مسلم دنیا کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟ ایک بڑا مسئلہ غزہ شہر کی بحالی کا بھی ہے، جو تقریباً تباہ ہو چُکا ہے۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان خوف ناک تصادم کی بنیادی وجہ تو شیخ جراح کے علاقے کا واقعہ ہے۔یہ قدیم شہر سے باہر ایک فلسطینی محلّہ ہے، جس کے مکانوں پر یہودیوں نے عدالتوں میں مقدمات کیے ہوئے ہیں، جن کا مقصد فلسطینیوں سے اُن کے مکانات ہتھیانا ہے۔ شیخ جراح اُن سرحدی بستیوں میں سے ایک ہے، جہاں سے اسرائیل فلسطینیوں کو بے دخل کرکے یہودی بستیاں بسانے کے لیے کوشاں ہے۔ 

اس اقدام سے اس علاقے میں یہودیوں کی اکثریت ہوجائے گی۔یہی وہ طریقہ ہے، جس سے اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا۔اسرائیل کی آبادی کا اکیس فی صد عرب باشندوں پر مشتمل ہے، جن میں سے بیش تر فلسطینی مسلمان ہیں۔ان عربوں کا کہنا ہے کہ انہیں دوسرے درجے کے شہریوں جیسے سلوک کا سامنا ہے اور وہ ظالمانہ تعصّب کا شکار ہیں۔شیخ جراح کے12 عرب خاندانوں کو بے دخلی کے نوٹس مل چُکے تھے اور اس پر احتجاج ہو رہا تھا۔

یہ معاملہ اسرائیل کی سپریم کورٹ میں ہے، جس کی سماعت حملوں کے سبب ملتوی کردی گئی۔دوسری جانب، مقبوضہ بیت المقدِس میں اسرائیل کے قبضے کی پچاسویں سال گرہ کے موقعے پر شہر میں ایک جلوس یا مارچ کا اہتمام کیا گیا، جس پر وہاں موجود عرب شہریوں نے شدید مزاحمت کی اور جھڑپیں ہوئیں۔ مسجدِ اقصیٰ کے سامنے بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔یاد رہے، اسرائیل نے شہر کے مشرقی حصّے پر جون1967ء کی 6 روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔اسرئیل نے مصر، اردن اور شام کی مشترکہ فوجی قوّت کو صرف چھے روز میں شکست دے کر بیت المقدِس کے مشرقی حصّے، غربِ اردن یعنی ویسٹ بینک، شرم الشیخ، غزہ اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔

بعدازاں، کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کے نتیجے میں غزہ اور غربِ اردن کے علاقے کو ملا کر فلسطینی ریاست قائم کی گئی۔صدر ٹرمپ نے اپنے دَور میں بیت المقدِس کو اسرائیل کا حصّہ تسلیم کرلیا۔ تمام اسلامی ممالک اور بعض مغربی ممالک نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔اگر عید سے شروع ہونے والی جھڑپوں کو دیکھا جائے، تو اکثر فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک عرصے سے حماس کی فوجی صلاحیت پر ضرب لگانے پر عمل پیرا ہے۔اِس بار اس فوجی کارروائی کو’’ آپریشن گارڈین وال‘‘ کا نام دیا گیا، جس میں 150 لڑاکا بم بار طیاروں، ٹینکس اور زمینی فوج نے حصّہ لیا۔

حماس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے اسرائیل پر دو ہزار کے قریب راکٹ داغے، جب کہ اسرائیل کی طرف سے بھی اعتراف کیا گیا کہ ان حملوں میں اُس کے 10 شہری ہلاک اور پچاس کے قریب زخمی ہوئے، لیکن اُس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیش تر راکٹ آئرن ڈوم سسٹم نے تباہ کردیے۔اسرائیل جیسا آئرن ڈوم دفاعی نظام دنیا کے صرف پانچ ممالک کے پاس ہے۔روس نے چار سال قبل بھارت کو ایسا ہی سسٹم نصب کر کے دیا تھا۔ اِس نظام میں ایٹمی حملے روکنے کی بھی صلاحیت ہے۔

اسرائیل کے دفاع میں اس سسٹم کا بنیادی کردار ہے۔ اس کے انتہائی حسّاس ریڈار عوام کو میزائل آنے سے پہلے ہی خبردار کردیتے ہیں اور پھر فضا ہی میں میزائل یا راکٹ تباہ کردیتے ہیں۔یہ ایک منہگا نظام ہے، لیکن دفاع کی اپنی ہی قیمت ہوتی ہے۔بھارت کے اس نظام میں روس کی سام ۔5 میزائل بیٹریاں لگی ہوئی ہیں، جنہیں جدید مانا جاتا ہے۔

حالیہ فوجی کارروائی میں اسرائیل کا سب سے زیادہ قابلِ مذمّت وہ حملہ تھا، جس میں اُس نے ایک ایسی دس منزلہ عمارت تباہ کردی، جس میں عالمی میڈیا کے دفاتر تھے۔اُسے خالی کرنے کے لیے صرف دو گھنٹے دیے گئے۔اس میں الجزیرہ، اے ایف پی، سی این این کے دفاتر تھے۔صحافتی تنظیم، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اسرائیل کے اِس اقدام کو جنگی جرائم میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اُس نے حماس کے97 فوجی کمانڈرز ہلاک کیے، تاہم اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوئی۔ غزہ شہر کی بیش تر سڑکوں کو فضائی حملوں میں تباہ کردیا گیا، جن میں اسپتالوں تک جانے والے راستے بھی شامل تھے۔ 

کورونا ٹیسٹنگ کی واحد لیب بھی تباہ ہوگئی، حالاں کہ غزہ دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے، جہاں کورونا پھیلنے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔اسرائیل کی جانب سے2014 ء کے بعد یہ سب سے بڑی فوجی کاروائی تھی۔ اس نے اُن زیرِ زمین سرنگوں کو بھی بم باری کا نشانہ بنایا، جو اسرائیلی بستیوں کے قریب کُھلتی ہیں اور جن سے حماس کے فوجی دستے نقل وحرکت کرتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں پچاس ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے۔2500 مکانات تباہ ہوئے ۔گو،حماس کی جانب سے مسلسل دعویٰ کیا جاتا رہا کہ وہ راکٹ حملوں کی صُورت جوابی کارروائی کر رہی ہے، لیکن ماہرین کے مطابق وہ بہت کم نقصان پہنچا سکی، کیوں کہ اسرائیل اُنھیں فضا ہی میں ناکارہ کرتا رہا۔ اسرائیل کے کچھ شہروں میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

خاص طور پر لُد شہر میں صُورتِ حال اِس قدر خراب ہوئی کہ ہنگامی حالت کا نفاذ کرنا پڑا۔ یہ2016 ء کے بعد پہلی مرتبہ ہوا۔ یہاں تک کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کو کہنا پڑا کہ یہ ناقابلِ قبول صُورتِ حال ہے۔یہ اَمر یقیناً اسرائیل کے لیے تشویش ناک ہوگا، کیوں کہ اب بھی اُس کی آبادی کا اکیس فی صد عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔بیرونی جنگ کے مقابلے میں اندرونی بے چینی، جو پُرتشدد ہنگاموں کی صُورت اختیار کر لے، کسی بھی ریاست کے لیے بڑا چیلنج بن سکتی ہے اور ہر مُلک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا نہ ہونے دے۔

جنگ کے دَوران سفارتی محاذ پر دو جانب سے پیش قدمی ہوئی۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے تین اجلاس ہوئے، تاہم وہ سیزفائر اور اسرائیل کی مذمّت میں کوئی متفّقہ قرارداد لانے میں ناکام رہی۔صدر جو بائیڈن نے شروع ہی میں امریکا کا موقف واضح کردیا تھا کہ اسرائیل کو حماس کے راکٹ حملوں کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ، جان بلنکن نے بھی اسی موقف کا اعادہ کیا، گو وہ جنگ بندی پر بھی زور دیتے رہے، جس کی دس دن بعد صدر بائیڈن نے بھی حمایت کی۔ دیکھا جائے، تو سلامتی کاؤنسل کے باقی چار مستقل ارکان کی جانب سے بھی فلسطین کے حق میں کوئی بڑی حمایت سامنے نہیں آئی۔روس تو زیادہ تر خاموش ہی رہا، جب کہ چین کا اصرار سیز فائر، تشدّد روکنے اور دو ریاستی حل پر تھا۔

چین، روس اور ناروے کی جانب سے مشترکہ قرار داد میں تشدّد کے خاتمے، عالمی قوانین کا احترام، عام شہریوں اور بچّوں کی حفاظت کو یقینی بنانا شامل تھا، اسے سلامتی کاؤنسل نے منظور کرنا تھا، لیکن امریکا نے کہا کہ وہ اس کی اِس وقت حمایت نہیں کرسکتا۔ امریکا نے کسی بھی قرار دار کو پاس نہیں ہونے دیا، جب تک اسرائیل نے اپنے فوجی اہداف پورے نہیں کر لیے۔افسوس، بڑی طاقتیں اقوامِ متحدہ میں سیاسی تنازعات کے انسانی المیوں کا ذکر تو بہت کرتی ہیں، لیکن اُن کے حل پر کم ہی توجّہ دیتی ہیں، یہاں تک کہ اُن کا’’ ٹھوس ردّعمل‘‘ بھی اُسی وقت سامنے آتا ہے، جب غالب فریق اپنے اہداف حاصل کر چُکا ہوتا ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ او آئی سی نے اسرائیل کے خلاف خاصی سخت قرار داد منظور کی، جس میں اُسے جارحیت کا ذمّے دار قرار دیتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ 

پاکستان نے ایک مرتبہ پھر کُھل کر اپنے فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دیا۔ مسلم کمیونٹی کی جانب سے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، لیکن اسرائیل نے حسبِ معمول کسی کی نہ سُنی اور اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھیں، جب تک کہ فوجی اہداف حاصل نہ کر لیے۔اِس فوجی کارروائی میں سب سے زیادہ نشانہ وہ معصوم شہری بنے، جو مکمل طور پر بے بس تھے۔اس بہیمانہ یک طرفہ جنگ کے بعد پوری شدّت سے یہ سوال سامنے ہے کہ ان شہریوں کی بحالی کے لیے امداد کہاں سے آئے گی؟فلسطینی اسٹیٹ کے اپنے وسائل تو نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس کا زیادہ تر بجٹ امدادی رقوم سے چلتا ہے، جو امریکا، مغربی اور عرب ممالک کی جانب سے دی جاتی ہے۔

صرف بیانات اور سفارتی کوششوں کے نام پر کیے جانے والے اقدامات اُن انسانی المیوں کو ختم نہیں کر پاتے، جو طویل عرصے تک متاثرین کے لیے اذیت کا باعث بنے رہتے ہیں۔کم از کم مسلم ممالک کو تو بیانات سے بڑھ کر ان تباہ حال فلسطینیوں کے لیے ضرور کوئی فنڈ مقرّر کرنا چاہیے، لیکن مشکل یہ ہے کہ زیادہ تر مسلم ممالک خود شدید اقتصادی مسائل کا شکار ہیں۔پاکستان، ایران ،تُرکی، سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک شاید بیانات سے زیادہ کچھ نہ کرسکیں۔روسی صدر، پیوٹن نے بھی جنگ کے دسویں روز ایک بیان میں کہا کہ’’ اسرائیل اور فلسطین میں جاری کشیدگی روکی جائے، جس میں بڑی تعداد میں پُرامن افراد کی جانیں گئیں۔‘‘اُن کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اس تنازعے کا حل ڈھونڈا جائے۔ 

یاد رہے، جب سوویت روس ایک سُپر پاور تھا، تو اس کے مِصر، شام اور فلسطین پر گہرے اثرات تھے کہ یہ سب سوشلسٹ مُلک شمار کیے جاتے تھے۔روس انہیں اسلحہ بھی سپلائی کرتا تھا اور سیاسی، مالی امداد بھی۔ لیکن اس کی تمام تر فوجی اور مالی سپورٹ کے باوجود جب ان عرب ممالک کو بار بار اسرائیل کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا، تو پھر مِصر، اردن اور شام نے اس مسئلے کا حل امریکا کی دوستی میں تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔پہلے مِصر نے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کیے اور اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ پھر اردن نے بھی ایسا ہی کچھ کیا۔فلسطینیوں پر بُرے دن تھے، یاسر عرفات اور اُن کے ساتھی پناہ کی تلاش میں مسلم ممالک میں پِھرتے رہے۔

لبنان میں فلسطینیوں کے بڑے بڑے کیمپ قائم ہوئے، لیکن 1980ء میں لبنان کی خانہ جنگی میں جب فلسطینی محصور ہوگئے، تو یاسر عرفات اور اُن کے ساتھیوں کو بڑی بے بسی کی حالت میں ایک معاہدے کے تحت امریکی بحری جہاز کے ذریعے بیروت کی بندر گاہ سے نکالا گیا۔بعد میں اُنہوں نے بھی کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں حصّہ لیا، جو امریکی سرپرستی میں ہوئے۔انہی مذاکرات کے نتیجے میں فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آیا، جس کے پہلے صدر خود یاسر عرفات تھے۔آج کل اُنہی کی پارٹی کے محمود عباس فلسطین کے صدر ہیں۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جن عرب اور افریقی ممالک نے گزشتہ دنوں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے، کیا وہ کسی مشکل میں آگئے ہیں؟ماہرین کے مطابق ، ان ممالک میں اندرونی بے چینی پھیل سکتی ہے، اِس لیے اُنہیں پھونک پھونک کر قدم بڑھانا ہوگا۔تُرکی نے ،جس کے 1949 ء سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں، چار سال کی تلخی کے بعد دو ماہ قبل ہی اسرائیل میں اپنا سفیر تعیّنات کیا تھا۔صدر اردوان کے سخت بیانات کے باوجود تُرکی نے سفیر کو واپس بُلانے جیسے اقدامات نہیں کیے۔

اطلاعات کے مطابق ،اسرائیل اور تُرکی کے درمیان سالانہ چھے ارب ڈالرز سے زاید کی تجارت ہوتی ہے۔ اسی طرح یو اے ای، بحرین، مراکش، مِصر اور اردن بھی خاموش پالیسی پر گام زن رہے۔ایک تو کورونا وبا نے ان ممالک کی کمر توڑ رکھی ہے، اوپر سے تیل کی کم قیمتوں نے اُنھیں بہت نقصان پہنچایا۔ ایران اور تُرکی پر امریکی پابندیوں نے بھی خاصا بوجھ ڈالا۔

ایران میں 19 جون کو صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں، جس میں بنیادی ایشو گزشتہ پندرہ سال کی کم زور معیشت اور امریکا سے نیوکلیئر مذاکرات ہیں۔اسی طرح خود فلسطینی ریاست میں اگلے ماہ انتخابات ہونے جا رہے تھے، جن میں حماس اور محاذِ آزادیٔ فلسطین کے درمیان مقابلہ تھا۔پاکستان سمیت بیش تر مسلم ممالک کے میڈیا میں غزہ کی جنگ کو خاصی کوریج ملی۔میڈیا نے اسرائیل کی جارحیت، شہریوں کی ہلاکتیں اور تباہی کے مناظر دِکھائے۔

حماس کے راکٹ حملوں اور اُن کے فضا ہی میں بکھرنے کی ویڈیوز بھی چلتی رہیں۔ان ویڈیوز کی بنیاد پر تجزیے، تبصرے بھی ہوتے رہے، لیکن شاید ہی کوئی مسلم مُلک ایسا ہو، جس کے میڈیا نے اپنی بنائی گئی فوٹیج دِکھائی ہوں۔مسلم ممالک کا میڈیا صرف مغربی میڈیا ہی پر انحصار کرتا رہا۔یہاں تک کہ تجزیے، تبصرے بھی وہیں سے لیے جاتے رہے۔ ایک لحاظ سے یہ مغربی میڈیا کی اعلیٰ پروفیشنلزم خدمات کا اعتراف ہے۔ ہمارے سیاسی لیڈر انہی کی نیوز کوریج کو بنیاد بناتے ہیں اور اُس پر اپنا ردِ عمل دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسلم ممالک پُرجوش بیانات کے باوجود فلسطین کی میڈیا کوریج کا بھی انتظام نہیں کر سکتے، تو اُن سے کسی فوجی یا بڑے سفارتی اقدام کی کیا اُمید کی جاسکتی ہے؟ 

ان ممالک کے لیڈر اور عوام اب مغربی میڈیا ہی کی آنکھ سے فلسطین اور انسانی حقوق کے معاملات دیکھنے کے عادی ہوچُکے ہیں۔ تبصرے ، تجزیے بھی اُنہی کے رپورٹرز اور ماہرین کے پڑھے جاتے ہیں، لیکن پھر انھیں مسلم عینک اور مسلم قلم سے ایک خاص رنگ دے دیا جاتا ہے، جس میں جذباتیت زیادہ اور حقیقت کم ہوتی ہے۔سوشل میڈیا کا حال تو بہت ہی بُرا ہے، کیوں کہ عام آدمی اُسی دنیا میں رہنا چاہتا ہے، جس میں وہ پلا بڑھا ہو۔خاص طور پر جب ایک ایسی جنگ کا معاملہ ہو، جس میں مذہب، برادرانہ تعلقات، مظلومیت اور ظالمانہ کاروائیاں سب ہی شامل ہوں، تو ایسے ماحول میں حقیقت تلاش کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

خود ہمارے ہاں عرب، اسرائیل جنگوں یا اُن تنازعات پر تبصرے دیکھے جائیں، جن میں ہم مسلم اُمّہ کے طور پر شامل ہیں، تو بہت کچھ ہماری توقّعات اور اُمیدوں کے برعکس نکلتا ہے۔ہم عراق جنگ میں صدام حسین کو فتح کے قریب سمجھتے رہے، لیکن جب نتائج سامنے آئے، تو شکست اُن کا مقدر ٹھہری۔ وہ لوگ ،جو جھوٹ کو سچ سمجھتے رہے، مایوسیوں میں ڈوب گئے۔ایسے مواقع پر سازشی تھیوریز گھڑنے والوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔

گزشتہ سات سال میں شام میں پانچ لاکھ سے زاید بے گناہ مسلمان شہری ہلاک اور ایک کروڑ سے زاید بے گھر ہوئے۔ پورا مُلک کھنڈر بن گیا۔مہاجرین کا ایک نہ تھمنے والا بحران تھا، جو سرحدی مسلم ممالک سے یورپ اور آسٹریلیا تک پر اثر انداز ہوا، تاہم اکثر مسلم ممالک میں ان المیوں پر اس طرح بات نہ ہوسکی، جو ان مظلوم شہریوں کا حق تھا۔شاید ہی اِس سلسلے میں کبھی کسی حکم ران یا وزیرِ خارجہ کا بیان دیکھا گیا ہو۔فلسطین کے معاملے پر ہم شروع ہی سے بہت زیادہ جذباتی رہے ہیں اور یہ درست بھی ہے، کیوں کہ اُن پر بہت ظلم ہوا ہے، اُنھیں گھروں سے نکال کر بے گھر کردیا گیا۔ 

اپنی ہی زمین پر دربدر ہیں، اِسی لیے جب بھی فلسطینی شہری یا عرب ممالک ،اسرائیل سے جنگ کرتے ہیں، تو ہمارے سارے تجزیے اُن کی فتح ہی سے متعلق ہوتے ہیں۔ اسی کو ہم اپنی مورل اور مذہبی سپورٹ سمجھتے ہیں۔ہمارا میڈیا اُن کی کم زوریوں کو کم ہی رپورٹ کرتا ہے کہ اس میں اُنہیں کتنا نقصان ہوتا ہے اور کتنا حقیقی فائدہ۔ اسے صرف مسلم اُمّہ کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، لیکن خود یہ عرب ممالک جس طرف اپنا فائدہ محسوس کرتے ہیں، اُسی طرف جُھک جاتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں لگتا ہے کہ مسلم کاز سے غدّاری ہو رہی ہے۔

تُرکی نے 1949ء سے اب تک اسرائیل سے سفارتی، تجارتی اور فوجی تعلقات قائم کر رکھے ہیں، لیکن میڈیا میں اس پر بات کرنا بہت مشکل ہے، لیکن جب حال ہی میں کچھ عرب ممالک نے اسی نوعیت کا قدم اٹھایا، تو اُن پر بہت تنقید ہوئی اور کہا گیا کہ بادشاہتوں نے فلسطینی کاز سے غدّاری کی ہے۔یہ بھی بہت کم ذکر ہوا کہ دو ریاستی حل پر برسوں سے فلسطینیوں اور اسرائیلی حکّام کے براہِ راست مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اُنہیں امریکا، روس، چین اور دوسری طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔اِس ضمن میں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ موجودہ صُورتِ حال میں پہلی ترجیح تو اُس تباہی کو روکنا تھا ،جو بے قابو طاقت کے بل پر اسرائیل نے غزہ کے شہریوں پر مسلّط کی، لیکن صرف سیز فائر اس کا مکمل حل نہیں۔

اکثر ممالک کی رائے میں، جن میں ہمارا دوست چین بھی شامل ہے، دو ریاستی حل کی طرف سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔ مسلم دنیا فلسطین،کشمیر، شام اور ایسے ہی دیگر تنازعات میں بُری طرح الجھی ہوئی ہے۔ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ان کا منصفانہ اور پائیدار حل تلاش کیا جائے، جس کے لیے کم از کم مسلمان ممالک تو ایک صفحے پر ہوں۔یہ جو مسلم دنیا میں برتری کی جنگ جاری رہتی ہے، اسے ان تنازعات کے حل کے درمیان نہیں آنا چاہیے۔مقابلہ ضرور ہو، لیکن سیاسی اور سفارتی سطح پر یا زیادہ سے زیادہ او آئی سی تک۔پھر او آئی سی کو ہر وقت ناکام کہنے کی روایت ختم کرکے اس پلیٹ فارم کوبھی زیادہ فعال اور مؤثر بنانا ہوگا۔

نیز، پہلے خود فلسطینیوں کو متفّق ہونا چاہیے کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں؟ مسلم دنیا کے لیے بیت المقدِس کا اسٹیٹس بہت اہم ہے، کیوں کہ یہ اُن کے دِلوں کے بہت قریب ہے۔یہ ایک ہزار سال سے زاید عرصے تک مسلم دنیا کا حصّہ رہا۔11دسمبر 1919 ء کو برطانوی جنرل ایلن بی نے تُرک عثمانی سلطنت کو شکست دے کر اس پر قبضہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ایلن بی، جنہوں نے اس شہر کو فتح کیا تھا، شہر سے کئی میل دُور ہی ٹینک سے اُترے اور ننگے پائوں شہر میں داخل ہوئے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شہر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا اِس کا تقدّس برقرار رہنا چاہیے۔

یہ تینوں آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے بہت اہم ہے، اِس لیے یہ ایک بے حد نازک اور حسّاس معاملہ ہے۔اس کا حل عالمی برادری مل کر ہی نکال سکتی ہے اور وہ بھی اِس طرح کہ کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں اور نہ ہی کسی کو شکست کا احساس ہو۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ فلسطینی ایک مظلوم قوم ہیں، جنھیں زبردستی اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا تاکہ اسرائیل کے نام سے ایک ریاست قائم کی جائے اور پھر اُسے طاقت کے اصول پر قائم رکھا جا رہا ہے۔یاسر عرفات کا، جنہوں نے فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی اور موجودہ فلسطینی اسٹیٹ کے بانی صدر بھی رہے، یہ فیصلہ تھا کہ اس تنازعے کا دو ریاستی حل نکالا جائے، جسے اب تک عالمی برداری سب سے بہتر حل مانتی ہے۔

تاہم حماس، جو فلسطین کی دوسری بڑی پارٹی ہے، اس فارمولے کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن وہ پھر بھی وہاں ہونے والے انتخابات میں حصّہ لیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حماس بھی اب اسرائیل سے بات چیت پر رضامند ہے۔اس صدی میں اسرائیل سے ہونے والی تمام فوجی جھڑپوں میں حماس ہی کا نمایاں کردار رہا، جس کا ہیڈ کوارٹر غزہ میں ہے۔ محمود عباس کی حکومت، اسرائیل سے مذاکرات کرتی آئی ہے، لیکن گزشتہ چار سال سے اس میں تعطّل آچُکا ہے، کیوں کہ شام، سعودی عرب، ایران کش مکش، یمن کی خانہ جنگی اور ایران، امریکا تنازعے نے فلسطین کے مسئلے کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا،حالاں کہ او آئی سی کے اجلاسوں میں اِس تنازعے کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہی تھی۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ حماس نے2014 ء میں بھی اسرائیل کے مقابلے میں خاصی مزاحمت دِکھائی تھی، لیکن اُس وقت بھی بہت بڑی تعداد میں فلسطینی شہری غزہ میں جاں بحق ہوئے اور شہر کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کے حالیہ راکٹ حملوں سے یہ تاثر بھی گیا کہ فلسطینی بھی فوجی طاقت استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور وہ اسرائیلی شہروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسرائیل نے انہی حملوں کو اپنی کارروائیوں کا جواز بنایا اور امریکی صدر، جوبائیڈن نے بھی اسرائیلی حملوں کو ’’ سیلف ڈیفینس کا حق‘‘ قرار دیا۔اگر دیکھا جائے، تو سلامتی کاؤنسل میں پیش کی جانے والی تمام قرار دادوں میں اسی تشدّد اور دونوں طرف کی خون ریزی بند کرنے کی بات کی گئی۔فلسطین کے عوام تو مظلوم ہیں اور نہتے بھی۔ وہ اب تک پتھروں اور غلیلوں سے مقابلہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔فوجیوں کا مقابلہ کرنے والوں میں نوعُمر بچّے بھی شامل ہیں۔ 

شاید اسی بنیاد پر انھیں دنیا بھر کی ہم دردیاں اور حمایت حاصل ہے، اسی سے اسرائیل کے غاصب ہونے کی تصدیق ہوتی ہے، جو نہتّے شہریوں کو بموں سے اُڑاتا ہے۔ پتھروں کے مقابلے میں توپوں کا استعمال کرتا ہے۔اس سے عالمی ہم دردی کی جذبات پیدا ہوئے۔اب حماس کے راکٹوں کا جس قدر میڈیا میں ذکر ہوا ہے اور اُنھیں دِکھایا گیا، اِس سے اُس امیج اور فلسطینیوں کی مظلومیت کو فائدہ نہیں پہنچا، اسی لیے مسلم ممالک کے سِوا کسی اور جانب سے اسرائیل کی پُرزور مذمّت سامنے نہیں آئی، جو ماضی میں دنیا کی طرف سے ہوتی رہی۔

روس اور چین(دونوں طرف سے) تشدّد روکنے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل پر زور دیتے رہے، جب کہ اکثر مغربی مماک نے اسرائیل کے دفاع کے حق کی بات کی۔یہ ٹھیک ہے کہ اُن کا میڈیا غزہ کی تباہی دِکھاتا رہا، تاہم ساتھ ہی حماس کی فوجی طاقت اور راکٹوں کا بھی بہت ذکر ہوا۔ حماس کے فوجی کمانڈرز کی ہلاکتوں کی بھی کہانیاں سامنے آئیں۔سوچنے کی بات ہے کہ اس سے کسے فائدہ اور کس کا موقف کا کم زور ہوا؟چین کے متعلق یہ اچھی بات سامنے آئی کہ اس کا کردار فلسطین کے حق میں مثبت تھا۔اس کے پاس دولت ہے اور ٹیکنالوجی بھی۔لہٰذا، اُسے بھی چاہیے کہ غزہ کے عوام کی بھرپور امداد کر کے اُن کی بحالی میں بنیادی کردار ادا کرے۔اور ساتھ ہی اُسے اپنی عالمی طاقت کے بل بوتے پر دو ریاستی فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔

تازہ ترین