• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اور صوبائی الیکشن جیسے تیسے بھی تھے خیر و خوبی سے ہو گئے ۔ نگران سیٹ اپ بھی اختتام کو پہنچا پھر اقتدار بھی پُرسکون منتقل ہوا مرکز اور بڑے صوبے میں مسلم لیگ ن کی تنہا حکومتیں بنیں ۔ مسلم لیگ نے فراخ دلی سے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں نیشنل پارٹی کو حکومتیں سونپ دیں۔ سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا اور اب یہ امکان ہو چلا تھا سب سے مخدوش صوبہ سندھ جو انتہائی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار تھا اب پی پی پی اور ایم کیو ایم مل کر حالات ٹھیک کریں گے مگر افسوس کہ حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔ اب ہر کوئی کراچی کو یرغمال بنانے پہ تلا ہوا ہے مگر عوام نے اندرونِ سندھ مکمل طور پر پی پی پی کی حمایت کی اور اس کو اتنے ووٹ ڈالے کہ وہ بھی تنہا حکومت بنانے پر مسرور ہے مگر وہ اب بھی ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت کرنا چاہتی ہے جبکہ شہروں میں ایم کیو ایم کو ووٹ ملے ۔ اس کے لئے ایم کیو ایم نے پورے صوبے کے عوام سے رائے طلب کی ہے کہ آیا وہ حکومت سندھ میں پی پی پی کے ساتھ بیٹھیں یا حزب اختلاف کا کردار ادا کریں؟ ریفرنڈم کے بعد جناب الطاف حسین فیصلہ کریں گے کہ آئندہ کیا لائحہ عمل ہوگا۔
اب آئیے صوبہ بلوچستان کی طرف وہاں گزشتہ 5سال سے پی پی پی کی اشتراک کے ساتھ حکومت تھی، وزیر اعلیٰ بلوچستان جناب اسلم رئیسانی نے زیادہ تر وقت اسلام آباد میں گزارا۔ پورے صوبے خصوصاً کوئٹہ شہر بم دھماکوں سے گونجتا رہا اور ہزارہ برادری کا قتل عام ہوتا رہا، فوج حالات کا جائزہ لیتی رہی ، رینجرز ، ایف سی ، پولیس انتظامیہ ناکام رہی ، گورنر راج بھی لگا ۔ اب جبکہ قوم پرستوں کی حکومت ہے کوئٹہ شہر میں معصوم خواتین نرسوں کی بس کو خودکش بم سے اڑا دیا جو نہ بلوچوں کی روایت ہے اور نہ ہی پشتونوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان ایسا کرنے کی سوچ رکھتا ہے پھر کون ظالم درندہ صفت حیوان نما انسان کر رہا ہے ؟ آج تک ایک بھی حادثے کا سراغ نہیں لگ سکا ہے جبکہ ایک مذہبی تنظیم اس فعل کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے ۔ کوئٹہ اور خضدار کے عوام مسلسل اس دہشت گردی کے زد میں ہیں مرکزی حکومت ، قومی اسمبلی اور سینیٹ صرف قرارداد مذمت پاس کر کے سمجھتی ہے کہ وہ اپنا حق پورا کر چکی ہے۔
آج کے موجودہ دور میں جہاں جدید ٹیکنالوجی موجود ہے،کیمرے بازاروں میں نصب ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ دہشت گرد نہیں پکڑے جا سکے۔ حال ہی میں امریکہ کی ایک ریاست ٹیکساس میں میرا تھن ریس کے اختتام پر بم حملہ کیا گیا ۔ صدر اوباما نے قوم سے خطاب کیا اور صرف 2دن میں پولیس نے دہشت گردوں کو بے نقاب کر کے مار دیا۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟ اتنے بڑے بڑے سانحے ہو رہے ہیں، کب تک غریب عوام کا خون بہتا رہے گا مرکزی حکومت پر بھی عوام کی جان و مال ، عزت و آبرو کی حفاظت مقدم ہے ۔ اسی بلوچستان میں زیارت کا تاریخی عجائب گھر (بابائے قوم قائداعظم کی آخری رہائش گاہ) کو ظالموں نے بموں سے اڑا دیا۔ قوم کا قیمتی اثاثہ ، تاریخی ورثہ کی بھی ہم حفاظت نہیں کر سکے صرف قراردادیں ہی زخموں پر مرہم کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون اور کب دہشت گردی کو روکے گا اور کون دہشت گردی کروا رہا ہے ۔
یہی حال خیبرپختونخوا کا ہے روز کہیں نہ کہیں خود کش حملے جاری ہیں،کبھی پشاور میں خودکش حملہ ہوتا ہے تو کبھی سوات میں ،تو کبھی بنوں خون میں نہاجاتا ہے ۔ ہر طرف نشانہ بے گناہ شہری ہی نشانہ بن رہے ہیں۔ کون سے خفیہ ہاتھ ہیں جو بڑی صفائی سے سرکاری گاڑیوں کو نشانہ بنا کر روپوش ہوجاتے ہیں۔ کبھی ہم بھارت کی خفیہ تنظیم ”را“ پر الزام ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں تو کبھی لشکر جھنگوی والے الزام اپنے سر لے کر ڈراتے ہیں تو کبھی طالبان پاکستان پر شبہ جاتا ہے۔ ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو سب کچھ بھلا کر صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ ہم کیسے دہشت گردی سے اس ملک کو پاک کریں۔ اس پر تمام سیاسی پارٹیوں کو سنجیدگی سے غور و غوض کر کے عوام کو دہشت گردی سے نکال کر سکون کا سانس دلانا ہوگا۔ اس میں فوج، رینجرز ، پولیس ، ایف سی ، خفیہ ادارے اور تمام سیاسی جماعتوں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ جب تک امن قائم نہیں ہوگا ہماری معیشت بھی یونہی گردش میں رہے گی ،آخر ہم غیر ملکی امداد پر کب تک انحصار کریں گے ۔ اب تو آئی ایم ایف کی طرف سے بھی من مانی شرائط پر قرضے دینے کی دھونس دی جارہی ہے ۔ خدارا بجٹ میں لگائے گئے اضافی ٹیکسوں کو واپس لیں کچھ تو عوام کا بوجھ ہلکا کریں ۔ عوام نے تیسری مرتبہ مسلم لیگ (ن) پر بھروسہ کیا اب ان کا فرض بنتا ہے کہ لوڈشیڈنگ ، گیس کی بندش اور دہشت گردی کے عذاب سے قوم کو نکالنے کی موثر تدابیر عمل میں لائے۔ حکومت صحیح اور اچھے مشیر چنے جو سیاسی حکمت عملی سے مسائل کے حل کا راستہ نکالیں۔ اگر صرف ہاں میں ہاں ملانے والے مشیروں پر پھر بھروسہ کیا گیا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
تازہ ترین