• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کاٹھ کی ہنڈیا

اگر کوئی بازار سے کاٹھ کی ہنڈیا خریدے یا آرڈر پر بنوا کر اس میں آلو گوشت ڈال کر چولہے پر چڑھا دے تو اس کے بارے میں کیا رائے دی جائے، اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی نے بہرحال یہ عمل کرڈالا اور حکومت کے اڑھائی سال بعد ہی ہانڈی نے آگ پکڑ لی۔ اگر فوری اسے چولہے سے اتار کر کسی مٹی کی ہانڈی میں منتقل کردیا جائے تو ادھ جلی ہانڈی میں کچھ نہ کچھ سالن بچ جائے، جہانگیر ترین تو خان صاحب جیسا ویژن نہیں رکھتے کہ ہم ان سے کسی یوٹرن کی توقع رکھیں، مریم نواز نے اس کاٹھ کی ہنڈیا پر جو کمنٹس دیئے ہیں وہ بخدا سیاسی ہنر کی شاعری ہے، یہ جملہ نہایت عاجزانہ مگر دانشمندانہ تبصرہ ہے ملاحظہ ہو:’’ ظلم وستم کرنے والے ٹوٹ گئے سہنے والے نہیں‘‘۔ مریم بی بی میں ہولے ہولے نواز شریف کی روح اتر رہی ہے کیا پتہ کہ ان کا پتا بازی پلٹ دے، بہرحال مزید کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا، انصاف نام رکھنا آسان اس پر عمل بہت مہنگا پڑتا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا، سیاسی مارکیٹ میں اب لاک ڈائون نہیں رہا، ایک دھیمی دھیمی ہل چل ہے ایک میٹھی میٹھی لذت ہے، حیرانی ہے ایک نہیں کتنے ہی جہانگیر ترین نکل آئے ہر ایک دوسرے کا ممنون احسان ہے، جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے بعد پی ٹی آئی میں فقط بے خیال گروپ ہی بچے گا، ترین صاحب نے گویا اپنی انوسٹمنٹ کیش کرالی۔

لگتا ہے وزارت عظمیٰ پہلے سوچی سیاست بعد میں، دعا گو ہیں کہ نیاّ پار لگے مگر اس میں خفیہ سوراخ اتنے ہو چکے ہیں کہ کشتی کا سرِ آب رواں رہنا مشکل ہے عوام سے کہا گھبرانا نہیں اور خود ؎

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا

اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

شہباز شریف کوبھی ناراض کرکے ن لیگ کو مزید یکجان کر دیا، کیا کامیاب سیاسی بصیرت ہے یا فقط بصارت، مہنگائی نے اچھی خاصی کنویسنگ کردی ہے؎

جو بڑھ کے تھام لے مینا اسی کا ہے

٭٭٭٭

اخلاقیات کا جنازہ

سیاستدانوں کو چاہیے اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں اخلاقیات پر توجہ دیں کہ برائی اوپر سے نیچے جاتی ہے، یہ نہ ہو کہ گری ہوئی زبان استعمال کرتے کرتے ہم من حیث القوم گالم گلوچ پر اتر آئیں اور یہ وبا ہر پاکستانی کو اپنی لپیٹ میں لے لے، قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’قولو اللناس حسنا‘‘( لوگوں سے خوش کلامی سے پیش آئو) آج کے دور میں بالعموم بدکلامی سے فساد برپا ہوتا ہے اور بہت آگے تک پہنچ جاتا ہے، نئی نسل جب قومی رہنمائوں کی زبان سے گندے الفاظ سنتی ہے تو وہ یہ سمجھتی ہے کہ شاید دشنام طرازی جائز ہے، راستہ دکھانے والے ہی راستے سے اتر جائیں تو ہماری تہذیب و تمدن میں غلط راستے نکل آئیں گے۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ محترم ہیں انہیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا ’’لیگی جواریوں، حواریوں، کنیزوں کا واویلا چور مچائے شور کے مترادف ہے‘‘۔ اپوزیشن بھی جواب آں غزل سے پرہیز کرے تاکہ بدپرہیزی سے منہ کی بواسیر نہ ہو جائے، ہمارے اسلاف نے اسلام خوش اخلاقی کے ذریعے پھیلایا، ارباب سیاست اگر اپنی سیاست منوانا چاہتے ہیں تو پہلےبہترین اخلاقیات کا مظاہرہ کریں ، کیا گالی کا گالی سے جواب دینے والا، گالی دینے والا نہیں ہوتا، خاموشی اختیار کرنے سے گالی دینے والا باز آ جاتا ہے، گالی کا اس سے بڑھ کر کوئی زور دار جواب نہیں،بہرحال اخلاقیات کا جنازہ ہم سب جس دھوم سے اٹھا رہے ہیں یہ کہیں شادی غم نہ کردے، اہل سیاست گالم گلوچ کا بازار ٹھنڈا کریں کہ جہنم کی آگ بہت گرم ہے۔

٭٭٭٭

گھر اجاڑ رویئے

مقام شکر ہے کہ تاحال ہمارا فیملی یونٹ خاصی حد تک محفوظ ہے، گھر مشکل سے بستے اور آسانی سے اجڑ جاتے ہیں، ہمارے ہر مرد و زن کو کسی کا گھر اجاڑنے جیسے ﷲ کو سخت ناپسند گناہ سے دور رہنا چاہیے کہ یہ وہ جرم ہے جو زندگی بھر کے روگ ، سوگ اور پچھتاوے دے جاتا ہے، کوئی بھی ہو کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرے جس سے کسی کا ہنستا بستا گھر ویرانے میں بدل جائے، بعض اوقات کوئی بیوی غصے میں شوہر سے اگر کہہ بھی دے کہ مرد کے بچے ہو تو دو مجھے طلاق اور مرد اپنی مردانگی کو بچانے کے نتیجے میں اپنا گھر پھونک بیٹھتا ہے اور بچے برباد ہو جاتے ہیں، یہ وہ قتل ہے کہ گھرکے افراد زندہ رہ سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں، لمحوں پر مشتمل غصہ ساری عمر کی جدائیاں، محرومیاں اور تباہیاں دے جاتا ہے، میاں بیوی میں کوئی ایک بھی صبر و تحمل سے کام لے تو خطرناک بم ناکارہ بنایا جا سکتا ہے، ﷲ اور اس کے رسولؐ کو لفظ طلاق بہت ناپسند ہے، کیونکہ خاندان کا یونٹ برقرار رہنا نظام ہستی کو چلانے کے لئے ایندھن کا کام دیتا ہے، بعض دوست احباب اور سہیلیاں میاں بیوی کے کان میں ایک جملہ ڈال کر ان کا گھر اجاڑ دیتے ہیں، عیب پوشی ایک ایسی نیکی ہے جو بربادیوں کے طوفان روک دیتی ہے، ایک خاتون نے پڑوسن سے کہا میرا میاں تو آسمان سے اترا فرشتہ ہے مجھے پھول کی طرح رکھتا ہے اور اس قدر مبالغے سے کام لیا کہ اگلے دن یہ منظر تھا کہ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے، گھر بچائیں جنت پائیں، کبھی نہ بھولیں کہ غصہ خطرناک ہے تباہی لاسکتا ہے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین