• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یروشلم جس کا عربی نام القدس ہے‘پرانی تاریخ میں اس شہر کو بیت المقدس لکھا جاتا رہا ہے۔پہلی صدی قبل از مسیح میں جب رومیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا تو ایلیا کے نام سے اسے پکارا۔ 2019 میں یروشلم اور فلسطین کے بہت سے شہر دیکھ کرآیا ہوں، مسجد اقصیٰ جسے مسلمان قبلۂ اول کہتے ہیں‘ یہ دراصل ان بہت سی پہاڑیوں پر واقع ہے جس میں سے ایک کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ یہ شہر تینوںالہامی مذاہب کے ماننے والوں کے لئے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہودی یہ سمجھتے ہیںکہ کائنات کی ابتدا ہی یہاں سے ہوئی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے یہیں اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار کیا تھا یہاں حضرت سلیمانؑ کا تعمیر کردہ ہیکل ہے جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا۔ عیسائیوں کے لئے یہ شہر اس لئے مقدس ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بھی ویسٹ بینک کے علاقہ بیت الحم میں ہوئی، میں نے یہ جگہ بھی دیکھی ہے جہاں چھٹی صدی کا ایک چرچ بھی موجود ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کے لئے اس لئے مقدس ہے کہ وہ اسے قبلۂ اول سمجھتے ہیں اور پھریہیں سے 620 میں حضرت محمد،ؐ جبرایلؑ کی معیت میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے، نبیوں کی امامت کروائی اور پھر یہاں سے معراج پر تشریف لے گئے۔ یہودی یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ حضرت یعقوبؑ نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی ۔ علاوہ ازیں، حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے تقریباً ہزار سال پہلے حضرت سلیمانؑ کے حکم سے اس مسجد اور شہر کی تجدید کی گئی اس لئے یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی بھی کہتے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شہر بہت سے غیر ملکی حکمرانوں نے فتح کیا ۔ یہ شہر کئی دفعہ برباداور پھر آباد ہوا۔ 639 میں حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں اس شہر پر عیسائیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجہ میں یہاں مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ اس کے بعد تقریباً پانچ سو سال تک مسلمانوں کا قبضہ اس شہر پر رہا پھر صلیبی جنگوں کے دوران کبھی عیسائی اور کبھی مسلمان فاتح رہے لیکن کم یازیادہ تعداد میں دونوں مذاہب کو ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے بھی رہے۔

جدید تاریخ میں مسلمانوں اور یہودیوں کا جھگڑا پہلی جنگ عظیم کے دوران 1917 میں شروع ہوا جب انگریزوں یا برطانیہ نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرلیا اور ان علاقوں میں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت دے دی چنانچہ پوری دنیا سے یہودیوں نے یہاں آبادہونا شروع کردیا۔ انہوں نے فلسطینیوں کی زمینیں بھی خریدنا شروع کردیں، پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔ 1948میں یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو یہیں سے عرب اسرائیل جنگ چھڑگئی ۔ فلسطین دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تو یروشلم یا بیت المقدس کے بھی دو حصے کئے گئے مشرقی حصہ فلسطینیوں جبکہ مغربی حصہ یہودیوں کے حوالے کیا گیا آج بھی مسجد اقصیٰ کے تمام انتظامی معاملات اردن کے پاس ہیں لیکن 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے یروشلم کے مشرقی حصہ پر بھی قبضہ کرلیا اور عالمی برادری آج بھی اس قبضے کو غیر قانونی سمجھتی ہے اسی لئے اسرائیل کو تسلیم کرنے والے سبھی ممالک نے اپنے سفارتخانے یروشلم کی بجائے تل ابیب میں قائم کئے۔ لیکن دو سال پہلے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو توڑتے ہوئے امریکی سفارتخانہ یروشلم میں قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح امریکہ، یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔

فلسطین اسرائیل حالیہ جھڑپوں میں تادم تحریر تین سو کے قریب ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن میں زیادہ تعداد معصوم شہریوں کی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ 2014 کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان یہ شدید ترین لڑائی ہے، اس وقت پوری دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے، بہت سے ملک اسرائیل اور بعض فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں لیکن ایک بات جو دنیا کے ہر ملک و خطے میں ہو رہی ہے‘ یہ کہ لاکھوں کی تعداد میں احتجاجی مظاہرے نہتے شہریوں کی ہلاکت پر اسرائیل کے خلاف ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت کا ماننا ہے کہ اگر ’’حماس‘‘ کی طر ف سے اسرائیلی شہروں پر راکٹ پھینکے جا رہے ہیں تو اسرائیل کو بھی حق ہے کہ وہ اپنے دفاع میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے نہ کہ نہتے فلسطینی شہریوں کو۔ آج صورت حال یوں ہے کہ سلامتی کونسل اور ’’او آئی سی‘‘ سمیت بہت سے اجلاس اس انسانی المیے کو روکنے کے لئے ہوئے لیکن یہ سب بے نتیجہ رہے، پاکستان سمیت دیگر مسلمان ملکوں کی اسمبلیاں بھی مذمتی قراردادوں اور زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی مثبت قدم اس معاملہ پر نہیں اٹھاسکیں یا یہ اس قابل ہی نہیں ہیں۔ یقیناً یہ ایک افسوسناک اور درد ناک مسئلہ ہے کیونکہ معصوم بچے اور بے قصور عوام ہی اس وحشت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اگلے روز یہ تو کہا کہ فریقین فوری فائر بندی کریں لیکن حیرت ہے کہ جدید اور مہذب دنیا کا کوئی ملک یا تنظیم اس مسئلے کا کوئی دیرپا یا مستقل حل نہ تو پیش کرسکی اور نہ ہی اس طرف کوئی پیشرفت نظر آتی ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ تھوڑے بہت اختلافات کے باوجود اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو ماننے والے حضرت ابراہیمؑ کو مشترکہ طور پر اپنا جد امجد مانتے ہیں۔ ان تمام کا یہ بھی ماننا ہے کہ یروشلم ہی وہ مقام ہے جس پر سامی مذاہب کو ماننے والے اپنا حق ملکیت کلیم کرسکتے ہیں،اوپر ذکر کی گئی تاریخی شہادتیں بھی اس حق کا ثبوت فراہم کرتی ہیں اور پھر سب کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ کوئی بھی فریق اپنے اس مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے گا جیساکہ کم وبیش کوئی تین ہزار سال کی تاریخ اس حقیقت کی گواہی دے رہی ہے، تو پھر ایسا کون سا امر مانع ہے کہ اس شہر اور اس خطے کی عزت و تکریم کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا قابل عمل حل تلاش کرلیا جائے جو ہر فریق کے لئے قابل قبول ہو، یہ سوچا اور طے کیا جائے کہ یہ خطہ بے شمار انبیا کرام اور مصلحین کا مسکن رہا یہاں الوہی نیک ہستیوں کی یادگاریں جا بجا موجود ہیں لہٰذا نہ تیرا نہ میرا، یہ سب کا ہے!

تازہ ترین