• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنا ہے لوگ اعتبار کرنا چھوڑ دیں تو لیڈری کا گراف بہت نیچے چلا جاتا ہے۔ یہ بھی سنا ہے جب خالصتاً اپنے بھی کوچہ و بازار میں مخالفت میں بولنے لگیں تو سیاست کے سنگ بھرم کا گراف بھی نیچے جانا شروع ہوجاتا ہے، یہ بھی کہ، اگر کوئی حکومت ضمنی انتخابات میں بے رنگ و بے بو نتائج پر ساکت ہو کر رہ جائے تو انتخابی گراوٹ کا گراف شرمندگی کندہ کرنے لگتا ہے۔ ان سب باتوں کو مرکزی، پنجاب اور کے پی حکومتیں تسلیم کرلیں تو اچھا ہے، نہ تسلیم کریں تو ان کا اپنا سچ اور عوام کا اپنا۔ مگر یاد رکھئے سیاسی یا جمہوری سچ وہی ہوتا ہے جو عوام کے لب پر ہو!

سیاست اور صحافت میں ’’نکتہ چینی‘‘ علم کی بنیاد مسلسل کھوئے جارہی ہے۔ جانے اس کا سبب حکومتی ترجمانوں کی کثرت ہے یا میرے جیسے کم سن تبصرہ نگاروں کی بہتات؟ دونوں صورتوں میں نقصان عوام کا ہے، حکمران عوام کو حقائق سے دور رکھیں اور میڈیا صداقت سے تو اس میں عوام کا جو نقصان ہے وہ تو ہے ہی مگر حکومت ہو یا میڈیا اِن کا اپنا نقصان زیادہ ہے۔ کمزور حافظہ، بیزاری اور لاتعلقی کو بروئے کار لانے کے بجائے قیادت اور صحافت کو مضبوط حافظہ، بیداری اور عوامی تعلق داری کو عملی جامہ پہنانا ہوگا، پھر گلشن کا کاروبار چلے گا۔ حافظے کے حوالے سے کل کچھ غیر سیاسی بچے پوچھ رہے تھے کیا واقعی، ’’مدت ہوئی وزیراعظم نے چائنہ میں کرپٹ وزراء کا پھانسی والا واقعہ دہرایا نہیں؟‘‘ یہ بھی پوچھا، وہ ایک گورنر جس کا استعفیٰ مانگا گیا تھا اور بطورِ خاص اس کا چرچا بھی کیا گیا، جب گورنر بلوچستان نے مستعفی ہونے سے انکار کردیا، وزیراعظم نے مستعفی نہ ہونے والے گورنر کو تسلیم کرلیا؟ ہم نے یوتھ سے ہاتھ جوڑ کر دو باتیں عرض کیں: (1) جس طرح ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں اسی طرح بحیثیت اپوزیشن ڈائیلاگ اور، بطور حکمران اور ہوتے ہیں۔ (2) کسی غیر کو این آر او دینا اور، کسی ’’اپنے‘‘ یا گورنر کا این آر او چھین لینا،اور ہوتا ہے!

بات چونکہ حکومتی و سیاسی گراف سے چلی چنانچہ پابند ہوں ‘ختم بھی اسی پر کروں وہ بھی حافظے، معلومات اور صداقت کی بنیاد پر کسی ایجنڈے کے تناظر میں نہیں۔ ہفتہ قبل ایک ’’باخبر‘‘ دوست کہنے لگا سندھ حکومت نے بدین میں کوئی کورونا سینٹر نہیں بنایا۔ ہم نے عرض کی، ٹھیک ہے پھر پی ایس 70 بدین کے ضمنی الیکشن میں سندھ حکومت کا حشر نشر ہوجائے گا جیسے پنجاب اور کے پی کے ضمنی انتخابات میں حکومتوں کا مسلسل تیاپانچا ہو رہا ہے۔ خیر یہ بات آئی گئی ہوگئی۔ مگر جب میں چھ دن قبل کراچی گیا تو وزیر صحت محترمہ ڈاکٹر عذرا پیچوہو سے ملاقات ہوئی تو جہاں میں نے لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے وی سی بیکھا رام اور حیدرآباد کے منفرد ادارے سندھ انسٹیٹیوٹ آف وزیوآل سائنسز اینڈ آپتھالمالوجی کا ذکرِخیر کیا پھر بےنظیر میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ کے مسائل کا تذکرہ کیا تو وہاں یہ بھی پوچھا، کیا بدین کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے؟ اس پر ڈاکٹر عذرا کا جواب تھا کہ ایسا ہرگز نہیں۔ بعدازاں اُن کا جواب درست ایسے ثابت ہوا کہ بدین 70 کے ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی نے پہلے سے بھی زیادہ ووٹوں کے ساتھ فتح اپنے نام کی حالانکہ مقابلے میں جی ڈی اے، پی ڈی ایم اور ان کے کرم فرما بھی تھے۔ واضح رہے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا (پی پی کی سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور موجودہ وفاقی وزیر) اور ذوالفقار مرزا کا تعلق شوگر اسٹیٹ کہلانے والے ضلع بدین ہی سے ہے، یہاں سابق وزیراعلیٰ ارباب رحیم کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ حالیہ ضمنی الیکشن کی شکست وہاں ہوئی جہاں وفاقی وزیر موجود ہے اور وہ چھوٹا سا ضلع ہے جو 87ویں نمبر آتا ہے۔ یہاں دو سوال جنم لیتے ہیں۔1، ساری عمر پیپلز پارٹی میں گزارنے اور وزارتیں رکھنے والے مرزا خاندان سے بھی پوچھنا چاہئے کہ ماضی میں اور آج بھی آپ نے بدین کیلئے کیا کیا؟ 2، پی ٹی آئی جو کہتے نہیں تھکتی کہ پرانے پاکستان کے حکمران نااہل اور کرپٹ تھے سو بدین کی شکست پر اب۔ سرکاری موقف کیا ہے؟

بات صرف اتنی ہے، سیانے کہتے ہیں پکی دیگ دیکھنی ہو، تو پوری دیگ نہیں الٹائی جاتی چار دانے دیکھ کر ساری پکوائی کی سمجھ آ جاتی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ، ہمارے کراچی کے ایک دوست محسن عباس پیپلز پارٹی کے بڑے ناقد ہیں اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر صدف زہرہ اُن سے بڑی ناقد۔ محسن کا عالم یہ کہ وہ کراچی 249 کے ضمنی الیکشن میں قادر مندوخیل کو نااہل کرانے کیلئے عدالت تک گئے۔ ان کے مہمان ہوتے ہوئے جب ہم ڈاکٹر عذرا پیچوہو، سعید غنی اور ناصر حسین شاہ کو انہیں ساتھ لئےاور بتائے بغیر ملے اور کراچی کے ایکسپو سنٹر کے ویکسی نیشن سنٹر کا دورہ کیا، تو انہوں نے احتجاج کیا۔ کیا کمال انتظامات تھے اس سنٹر کے۔ ڈاکٹر صدف جو دوروں پر بطور ٹیم ممبر اور ماہر صحت ساتھ ہوتی ہیں، جگر ٹرانسپلانٹ کے گمبٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ، آئی انسٹیٹیوٹ حیدرآباد اور این آئی سی وی ڈی کو پاکستان کے سب سے بہترین پروجیکٹ قرار دیتی ہیں گویا پیپلز پارٹی مخالفین میزبانوں نے ڈاکٹر عذرا کو اپنا آئیڈیل قرار دیا، اسی طرح ناصر شاہ اور سعید غنی کو سیاست دان کے بجائے حقیقی خدمت گار پکارا۔ اجی یہ ہوتا ہے کردار یا سیاست کہ شدید مخالفین بھی تعریف کرنے مجبور ہوں۔ آخر، یہ سب کچھ پنجاب اور وفاق میں کیوں نہیں؟ جہانگیر ترین کا معاملہ جو ہو سو ہو لیکن پنجاب کے ایک اہم وزیر ہمیں ہمیشہ کہتے ہیں بزدار صاحب اور گورنر پنجاب کا ﷲ ہی حافظ، ممبران پنجاب اسمبلی سعید اکبر نوانی یا نعمان لنگڑیال و سلمان نعیم کیا چیز ہیں۔ ہمیں معلوم ہے ترین گروپ کا گزارا پی ٹی آئی کے بغیر ہے ہی نہیں مگر جب تک حکومت ہے اور کوئی راجہ ریاض یا سعید اکبر نوانی نالاں ہیں تو قیادت کی عاقبت نااندیشی کے سبب۔ بزدار اپنے سے بڑے قد کاٹھ کے سیاست دان کو گر لفٹ نہیں کراتے تو یہ احساسِ کم تری ہے جسے احساسِ برتری کے طور سے پیش کیا جاتا ہے۔ کوئی مجھے پنجاب یا وفاق کے تین ایسے وزراء بتادے جن کی مخالفین بھی تعریف کرتے ہوں، کہ میں قلم بند کرسکوں۔ ہاں، وہ سیانے اکثر کہا کرتے ہیں کہ، حُسن وہ جس کی سوتنیں بھی تعریف کریں! اور حکومتوں کوگراف سامنے آویزاں رکھنے چاہئیں!

تازہ ترین