وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے منصب سنبھالنے کے بعد کہا کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد بہت مشکل ہے، آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھی ہیں لیکن ہم آئی ایم ایف معاہدے سے نکلیں گے نہیں بلکہ اس کے طریقہ کار میں تبدیلی لائیں گے۔ ہمیں آئی ایم ایف کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارے اقدامات سے ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں آئی ایم ایف پروگرام پر نظرثانی کیلئے کہا ہے جس سے قومی معیشت متاثر ہورہی ہے اور عوام پر بہت زیادہ بوجھ پڑرہا ہے جس میں خاص طور پر بجلی کے نرخوں میں اضافے کی شرط قابل ذکر ہے۔ آئی ایم ایف نے اپریل 2020 میں پاکستان کو کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے 1.4ارب ڈالر ریپڈ فنانس انسٹرومنٹ (RFI) کے تحت فراہم کئے جبکہ جولائی 2019 میں 6ارب ڈالر کے قرضے کا معاہدہ کیا جس میں سے پاکستان 2ارب ڈالر وصول کرچکا ہے۔آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام گزشتہ سال بجلی کے نرخوں میں اضافے پر مہلت مانگنے اور کورونا کی پہلی لہر کی وجہ سے ملتوی ہوا مگر اس سال فروری میں پاکستان معاہدے کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف کی جن شرائط پر رضامند ہوا، ان میں نیپرا اور اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم، ایف بی آر کی اضافی ٹیکس وصولی، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ اور مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ شامل ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں کورونا کی تیسری لہر کی وجہ سے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد قابل عمل نہیں۔ اگر پاکستان اس پروگرام پر کاربند رہا تو ملک ترقی کی بجائے کساد بازاری کا شکارہو جائے گا اور ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 22معاہدے ہوچکے ہیں جن میں سےصرف ایک پروگرام (2013-18) پر مکمل عملدرآمد ہوا اور باقی معاہدوں پر نظرثانی کی جاچکی ہے لہٰذاموجودہ معاہدے پر بھی نظرثانی کی گنجائش ہے۔
آئی ایم ایف سے حکومت نے جن شرائط پر اتفاق کیا ہے، ان میں آئندہ بجٹ میں 1272ارب روپے اضافی ٹیکسز کی وصولی جس کی رو سے ایف بی آر کا2020-21کا ٹیکس ہدف 4963 ارب روپے سے بڑھاکر آئندہ مالی سال 2021-22میں 6235ارب روپے رکھنا ہے جو 26 فیصد زیادہ ہے اور کورونا کے دوران اس قدر اضافی ریونیو کی وصولی ٹیکس دہندگان پر بڑا بوجھ ثابت ہوگی۔ اس کے علاوہ حکومت کو رواں مالی سال پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے 607ارب روپے اور آئندہ سال 510 ارب روپے اضافی حاصل کرنا ہوں گے اور ہدف حاصل نہ کرنے کی صورت میں ترقیاتی منصوبوں (PSDP) میں کٹوتی کرنا پڑے گی جس سے جی ڈی پی گروتھ میں کمی، بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا جس کے مدنظر آئی ایم ایف نے اس سال پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ میں 1.5فیصد اور مہنگائی یعنی افراط زر9فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کی رو سے صدارتی آرڈیننس کے تحت بجلی کے نرخوں میں 6مرحلوں میں اپریل 2021سےجون 2023 تک صارفین سے 884ارب روپے وصول کئے جائیں گے جبکہ حکومت نے گردشی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 10فیصد یعنی 1.40 روپے فی یونٹ اضافی سرچارج بھی لگایا ہے جس سے بجلی کے نرخوں میں 7فیصد اضافے سے مجموعی طور پر 8.95روپے فی یونٹ اضافہ ہوجائے گا اور صارفین کو 1134ارب روپے کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
آئی ایم ایف کو حکومتی2400ارب روپے کے گردشی قرضوں اور خسارے میں چلنے والے اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور واپڈا جن کی نجکاری کرنے کی بجائے حکومت نے گزشتہ 2 برسوں میں 1000ارب روپے جھونک دیئے، پر شدید تشویش ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت نے ایکسپورٹ بڑ ھا نے کیلئے جون 2021تک بجلی اور گیس کے نرخوں کیلئے ایک رعایتی پیکیج دیا تھا جس سے ایکسپورٹس میں اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن آئی ایم ایف کو یہ مراعاتی پیکیج قبول نہیں جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل پالیسی کا اعلان رُکا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد سے پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ گزشتہ سال منفی رہی جس سے ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق ملکی معیشت کے حجم میں 33ارب ڈالر کی کمی ہوئی جس سے 40لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے اور 10لاکھ بیروزگار ہوگئے۔پاکستانی روپے کی قدر خطے میں سب سے کمزور ثابت ہوئی اور اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ کو 13.25فیصد تک بڑ ھا نے کے نتیجے میں بینکوں کے لینڈنگ ریٹس 15سے 16فیصد ہونے کی وجہ سے ملک میں صنعتکاری کا عمل رک گیا جس نے گروتھ کو بری طرح متاثر کیا۔ میں اِن حقائق کے پیشِ نظر وزیر خزانہ شوکت ترین کی تیز گروتھ کی حکمت عملی سے اتفاق کرتا ہوں جس سے ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور غربت میں کمی آئے گی۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس کے نرخوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ ہماری ایکسپورٹ کی مسابقتی سکت ختم کردے گا اور ناقابلِ برداشت مہنگائی کا سبب بنے گا لہٰذا ملکی مفاد میں حکومت کو چاہئے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے پر نظرثانی کرے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)