• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو تقریباً ایک ماہ ہو گیا ہے جبکہ مختلف مسائل و مشکلات سے دوچار عوام بے چین ہو رہے ہیں کہ حکومت کو ان کے لئے کچھ کرنا چاہئے، اس حوالے سے حالیہ بجٹ کے مختلف اعلانات اور اقدامات سے عوام کی زیادہ تعداد مطمئن بھی نظر نہیں آ رہی، اس لئے کہ انہیں بجٹ آہستہ آہستہ سمجھ آ رہا ہے اور حکومت کو سمجھ آ رہا ہے کہ اب کی بار نظام چلانا اتنا آسان نہیں ہے، ایک طرف لاتعداد داخلی مسائل اور دوسری طرف بے پناہ بیرونی معاملات، جس کا تعلق پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری سے ہے۔ ایسے حالات میں وزیراعظم میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ اپنے وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار کی مشاورت سے ملکی و غیر ملکی بزنس ٹائیکون اور سرمایہ کاروں، تاجروں سے لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ جا کر ملاقاتیں کریں، انہیں اپنی اس چارج شیٹ کی تفصیلات سے آگاہ کریں جو انہوں نے سابقہ حکومت کے کرپشن، بدانتظامی کے لاتعداد واقعات پر مبنی تیار کی تھی۔ اس حوالے سے انہیں بتائیں کہ آپ حوصلے سے کام شروع کریں، مل جل کر وسائل کے صحیح استعمال کی منصوبہ بندی کریں اور دوطرفہ قربانی کے جذبے کو فروغ دیں، اس وقت تو ایسے لگ رہا ہے کہ اسلام آباد کی بیورو کریسی نے ان کی حکومت کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ وہ انہیں طرح طرح کے سہانے خواب بھی دکھا رہی ہے اور کئی حوالوں سے ڈرا بھی رہی ہے۔ یہ کام بیورو کریسی ہمیشہ سے کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کو اپنی بھرپور صلاحیتوں سے عوام میں پیدا ہونے والی پریشانی کی لہر کو ابھی سے قابو کرنا ہو گا ورنہ چند ماہ کے بعد مختلف حلقوں میں ریٹ کھلنا شروع ہو جائیں گے کہ یہ حکومت اب گئی یا تب گئی۔ یہی صورتحال صدر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کو بھی درپیش تھی مگر وہ جیسے تیسے پانچ سال پورے کر گئی۔ اس میں کوئی مانے یا نہ مانے مسلم لیگ کی قیادت کی اخلاقی سپورٹ اور بھٹو فیملی سے کئے گئے وعدے پورے کرنے کی سوچ نمایاں رہی، ورنہ ایک دو مواقع پر تو سابق حکومت تین سال سے بھی کم عرصہ میں جاتے جاتے بچ گئی تھی، جب مسلم لیگ ن کے ممبران پارلیمنٹ کو اچانک پارٹی قیادت نے آخری قدم اٹھانے سے روک دیا تھا۔ اس وقت تویہ صورتحال نہیں ہے، پیپلز پارٹی سیاسی طور پر کمزور نظر آ رہی ہے، کل کیا ہوتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ بہرحال موجودہ حالات میں حکومت کو بڑی حکمت کے ساتھ عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنا ہو گا، اس کے لئے مہنگائی میں کمی، امن و امان کی صورتحال میں بہتری اور صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کی بحالی ازحد ضروری ہے۔ اس سے ہی روز گار کے مواقع بڑھیں گے جس سے دہشت گردی کی طرف مائل نوجوان نسل کسی بھی ٹریپ میں نہیں آ سکے گی۔ ان دنوں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایم ایف کے وفد کے ارکان بھی پاکستانی حکام کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ حالیہ بجٹ اور پارٹی کے منشور کی روشنی میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں کے مساوی نظام کو رائج کرنے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں، فنڈ کے کئی امور واقعتا پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے ضروری ہیں، جبکہ کچھ سے اختلاف کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس وقت پاکستان کی معاشی صورتحال ایک کمزور ترین شخص جیسی ہے جو کینسر کے باعث لاعلاج نظر آ رہا ہے، مگر ابھی بھی اس کی بہتری کے روشن امکانات موجود ہیں جس کے لئے بہتر گورننس اور میرٹ پر نظام کا اجراء کر کے عوام کی بنیادی تکالیف کا خاتمہ، اس کے ساتھ مسلم لیگ ن نے پہلے 100 دن کے لئے جو پلان بنایا گیا، اس پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تھا تو پھر یہ ”کاغذی کارروائی“ کی کیا ضرورت ہے؟ مثال کے طور پر اس پلان کے پہلے ہفتے میں وزارت پانی و بجلی، پٹرولیم اور قدرتی وسائل کو اکٹھا کر کے وزارت انرجی قائم کرنا تھی جس کے سربراہ وفاقی وزیر انرجی اور سیکرٹری انرجی کہلاتے تھے۔
دوسرے ہفتے میں پیپکو اور واپڈا کے ماتحت اداروں میں نئے بورڈ آف ڈائریکٹر بنانے تھے، جس میں بزنس مین، توانائی اور مالی و انتظامی امور کے ماہرین شامل کرنے تھے، اس طرح مختلف قومی اداروں میں نئے CEO اینڈ CFO کا تقرر کرنا تھا، بلوں کی وصولی کو 100 فیصد یقینی بنانا تھا، بجلی چوری اور فنی نقصانات کو کم سے کم سطح پر لانا تھا، صوبائی وزراء کو بجلی کے اداروں کی وصولی کے لئے فعال بنانا تھا۔ پیداواری یونٹوں کی صورتحال بہتر بنانا تھی، مختلف اداروں کی نجکاری کے لئے ٹاسک فورس بنانے کے لئے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ ایک سے دو ہفتوں میں متعلقہ وزیر صاحب نے سوئی سدرن، سوئی ناردرن، پی پی ایل اور دوسرے اداروں کی تنظیم نو اور نئے بورڈ بنانے تھے، نیپرا اور اوگرا میں نئے ممبرزکی تقرری کرنا تھی، جبکہ تیسرے ہفتے میں محل ہائیڈروپاور پراجیکٹ سے 600 میگاواٹ اور کوئلہ سے چلنے والے مختلف پلانٹس سے 5 ہزار میگاواٹ بجلی کے حصول کے لئے پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ (PPIB) نے مختلف اقدامات کا آغاز کرنا تھا، غرض مسلم لیگ ن نے لاتعداد اقدامات کا بریف تیار کیا تھا، لیکن اب اس پر عملدرآمد میں تاخیر پر ہر کوئی حیران ہو رہا ہے۔ اگر حکومت خاموشی سے ان چیزوں پر عمل کر رہی ہے تو اس کا کیا فائدہ! عوام کو تو عملی نتائج چاہئیں، اس کے لئے بند کمرے کی منصوبہ بندی نہیں، عملی طور پر عوام کو کچھ دینے اور اداروں کو تباہی و بربادی سے نکال کر صحیح سمت میں چلانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پارٹی منشور میں سرکاری اخراجات میں کمی کا عندیہ دیا گیا تھا، مگر امیروں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کے لئے کوئی اقدام سامنے نہیں آیا، البتہ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے اخراجات میں کمی اور دوسری طرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا، مگر اعلیٰ حکام کی سکیورٹی کے اخراجات میں کمی نظر نہیں آئی، ٹیکس ریٹ میں اضافہ کیا گیا۔ گو کہ اب سپریم کورٹ نے جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ پر عملدرآمد روک دیا ہے، مگر پاکستان میں جس چیز کی قیمت بڑھ جائے اس میں کمی کہاں ہوتی ہے۔ پارٹی منشور کے برعکس براہ راست ٹیکسوں کی شرح 37 فیصد ہی رہی۔ بینکوں میں کمی کے اعلان کے برعکس مختلف دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2013ء میں 483.8 ارب روپے کے قرضوں کے برعکس 2014ء میں 974.9 ارب روپے سٹیٹ بنک سے لئے جائیں گے۔ اس سے افراط زر مزید بڑھے گا، لاتعداد اعلانات کے باوجود امیروں کے لئے200 ارب روپے کی سبسڈی برقرار رہی ہے۔ ملکی ریونیو میں ماہرین کے مطابق 800 ارب روپے کے اضافہ کی گنجائش ہے۔ اس حوالے سے زیادہ اقدامات کئے جا سکتے تھے ماہرین کے مطابق اس وقت تو 95 فیصد وسائل 2 فیصد سے چار فیصد رولنگ کلاس کھا رہی ہے جبکہ یہ شیئر عام افراد کو زیادہ ملنا چاہئے۔ اس حوالے سے اگر حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کرنے ہیں تو پھر انہیں امیروں کی بجائے غریبوں کو قومی وسائل میں زیادہ حصہ دینا اور دلانا ہو گا۔ اس کیلئے پہلے حکمران خود قربانی دیں، پھر امیروں سے لیں اور آخر میں غریبوں کو قربانی کے جذبے کی تربیت دیں۔
تازہ ترین