• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں کافی عرصے سے ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں میں انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ انتخابات ہونے اور نئی حکومتیں آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رُکا اس صورتحال پر ملک بھر کے وطن دوست اور خاص طور پر کراچی کے لوگ سخت رنجیدہ ہیں۔ ایسی صورتحال کا اگر پاکستان کے نئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نوٹس لیا ہے تو برا تو نہیں کیا۔ مگر کیا اس صورتحال کا علاج ان کی طرف سے سندھ حکومت کو وارننگ دینا ہی رہ گیا تھا۔ واضح رہے کہ جمعرات کو میاں نواز شریف کے” اسمارٹ“ وزیر داخلہ نے ایک سخت زبان بیان داغ دیا جس کے ذریعے انہوں نے سندھ حکومت کو وارننگ دی ہے کہ ”اس صورتحال کو ایک ماہ میں روک دیا جائے“ اگر صوبائی حکومت کچھ نہ کرسکی تو وفاق کو کردار ادا کرنا پڑے گا“۔ اس وارننگ کا مطلب تو ایک ہی نکلتا ہے کہ اگر سندھ حکومت اس صورتحال کو کنٹرول نہیں کرسکی تو پھر سندھ میں گورنر راج آ سکتا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو ایسی جلدی کیوں؟ کیا نواز شریف حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے پی پی حکومت کے خاتمے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ حالانکہ بلوچستان میں صورتحال سندھ سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ دو دن قبل ہی ایک دن میں دو انتہائی نفرت انگیز اور خونریز واقعات ہوئے۔ ایک طرف زیارت میں پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی بلوچستان کے پرفضا مقام زیارت میں ان کی آخری قیام گاہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس عمارت پر پاکستان کے پرچم کے بجائے بی ایل اے کا پرچم لہرایا گیا۔ قائداعظم کی یہ آخری قیام گاہ پاکستان کی آزادی اور خودداری کی علامت ہے، علاوہ ازیں دوسرے دن صبح کوئٹہ شہر میں ایک ہی دن میڈیکل کالج وغیرہ پر خودکش حملہ کر کے کئی معصوم طالبات کی زندگیاں لے لی گئیں۔ اس سلسلے میں اطلاعات آتے ہی وفاقی وزیر داخلہ مع وفاقی وزیر اطلاعات کوئٹہ پہنچے، وہاں انہوں نے بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ جن کا تعلق بلوچستان کے متوسط طبقے سے ہے ملاقاتیں کیں۔ علاوہ ازیں سول اور دیگر اداروں کے اعلیٰ حکام سے بھی اجلاس منعقد کئے گئے اور وفاقی حکومت نے اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے بلوچستان حکومت کو ہر قسم کی مدد کا یقین دلایا۔ سب نے ہمارے وزیر داخلہ کی ان سرگرمیوں اور احکامات کی زبردست تعریف کی اور کرنی بھی چاہئے تھی۔ اسی طرح خیبرپختونخوا (کے پی کے) صوبے میں الگ مار دھاڑ کے واقعات مسلسل جاری ہیں مگر یہاں بھی نہ وفاقی حکومت کے کسی اور صاحب نے نہ ہمارے”اسمارٹ“ وزیر داخلہ نے ایسی وارننگ جاری کی جیسی سندھ حکومت کو جاری کی گئی ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ بلوچستان کی طرح ہمارے” اسمارٹ“ وزیر داخلہ فوری طور پر سندھ بھی آتے۔ یہاں پر پی پی اور ایم کیو ایم کی قیادت اپنی پارٹی اور اپنے اتحادیوں کے رہنماؤں سے اجلاس کرتے اور پہلے مرحلے میں سب مل کے دہشت گردی اور خودکش حملوں کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی بناتے۔ گورنر راج کی تجویز ہے تو بعد میں بھی غور ہو سکتا تھا۔ اس ساری صورتحال پر میری پی پی کے ایک مرکزی رہنما سے بات چیت ہوئی۔ وہ بھی کراچی میں جاری اس دہشت گردی کو Iron Hand سے دبانے کے حق میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پی پی کے سیکڑوں کارکن اس دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں مگر انہوں نے سوال کیا کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ کیا کر رہے ہیں۔ کیا ان کا فقط ایک مشن ہے کہ سندھ کو کس طرح کہنہ مشق بنایا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ساؤتھ پنجاب میں پاکستانی طالبان کے جو کیمپس ہیں ان کو انہوں نے پہلے مرحلے میں ختم کیوں نہیں کیا؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ اور ان دہشت گرد تنظیموں میں یہ مفاہمت ہو چکی ہے کہ پنجاب میں کوئی دہشت گردی نہیں کی جائے گی باقی سندھ اور بلوچستان کو ہی نشانہ بنایا جائے گا۔ انہوں نے ایک اور سوال کیا کہ ایک ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو اغوا کیا گیا تھا جس کا ابھی تک کوئی اَتہ پتہ نہیں، مگر انہوں نے سوال کیا کہ آج تک وزیر اعظم میاں نواز شریف، پنجاب کے خادم اعلیٰ اور” اسمارٹ“ وزیر داخلہ نے ہمدردی کی خاطر ہی سہی گیلانی کے پاس گئے تو نہیں مگر شاید انہوں نے ان کو اس سلسلے میں کوئی ٹیلیفون کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ یہ بات کر کے یہ پی پی رہنما بہت رنجیدہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ اگر ہمارے قائدین جو خود کو قومی قائدین کہتے ہیں کیاان سے اور یہی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جب نواز شریف زیرعلاج عمران خان کی مزاج پرسی کیلئے گئے تو ہر ایک نے ان کی تعریف کی۔ مگر یہ سب کچھ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے اس بات پر خاص طور پر افسوس ظاہر کیا کہ اور تو اور نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی جو ایک صحافی ہیں انہوں نے بھی گیلانی سے کوئی ہمدردی کرنا مناسب نہیں سمجھا، آخر کیوں؟
جہاں تک زیارت میں قائداعظم کی ریذیڈنسی کی توہین کرنے کا تعلق ہے تو سندھ کے مبصرین سوال کرتے ہیں کہ کیا جب قائداعظم ہوائی جہاز کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی پہنچے اور وہاں سے جب ان کو ایک بیکار گاڑی میں چڑھایا گیا جو اطلاعات کے مطابق راستے میں ڈرگ روڈ پر کافی عرصے تک بے یارو مددگار کھڑی رہی۔ اس دوران ان کی مدد کو کوئی نہیں آیا۔ اطلاعات کے مطابق اسی حالت میں قائداعظم انتقال کرگئے، لہٰذا کئی مبصرین اس رائے کے ہیں کہ یہ سب قائد کے خلاف ایک سازش تھی اور وہ قدرتی موت نہیں مرے مگر انہیں قتل کیا گیا۔ اگر یہ صحیح ہے تو یہ سندھ کا پہلا قومی رہنما تھا جسے قتل کر کے ان سے جان چھڑائی گئی۔ دلچسپ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اور تو اور آج تک ہمارے طاقتور حلقوں نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ قائداعظم کی اصل جنم بھومی وزیر مینشن کراچی نہیں مگر جھرک ضلع ٹھٹھہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے وقت میں میٹرک میں نصابی کتاب میں ایک سبق اس بات پر تھا کہ قائداعظم کی برتھ پلیس جھرک ہے۔ بعد میں یہ کتابیں ہی گم کر دی گئیں اور اس بات پر ایک قسم کی Un-written پابندی رہی کہ قائداعظم کی برتھ پلیس جھرک نہیں وزیر مینشن کراچی ہے۔ اس زمانے میں جھرک میں قائداعظم کے والد کے گھر اور جس اسکول میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی کے آثار موجود تھے اور اسکول کے رجسٹر میں جس تاریخ کو قائداعظم پہلی کلاس میں داخل ہوئے اس کی بھی انٹری تھی مگر بعد میں یہ سب یا تو مٹا دیا گیا یا گم کر دیا گیا،کیوں؟ کیا یہ ثابت ہونے سے قائداعظم جھرک میں پیدا ہوئے تھے ملک ٹوٹ جاتا؟ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات کے بعد مرکز اور دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی نئی حکومتیں بنتے ہی سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد عمرے کیلئے چلے گئے۔
یہ اچھی بات ہے۔ یہ سعادت حاصل کرنا بہت اچھی بات ہے مگر سندھ کے سیاسی حلقوں میں اس سلسلے میں بھی کئی کہاوتیں رائج ہیں کہ انہوں نے عمرے کے دوران کچھ اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں، اطلاعات کے مطابق ان شخصیات نے بعد میں پاکستان میں نواز شریف سے بھی رابطے قائم کئے ہیں۔ بہرحال جتنے منہ ہیں اتنی ہی باتیں۔ عام خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ نئی حکومتیں بنتے ہی پی ایم ایل (ن) اپنا کوئی گورنر مقرر کرے گی۔ اب تک تو ایسا نہیں ہوا مگر ایک دن پہلے چوہدری نثار صاحب نے گورنر تبدیل کرنے کی بات کی ہے۔ اس سلسلے میں بھی اس وقت خود پی ایم ایل (ن) کے حلقوں کی طرف سے متضاد اطلاعات آ رہی ہیں۔ پہلے تو یہ اطلاعات آ رہی تھیں کہ پہلی فرصت میں ممتاز بھٹو یا سید غوث علی شاہ میں سے کسی ایک کو سندھ کا گورنر بنایا جا رہا ہے۔ شاید بعد میں یہ سوچ کر کہ اس کے نتیجے میں پی ایم ایل کی پی پی سے فوری طور پر کھنچاؤ کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، فی الحال اس تجویز کو روک دیا گیا۔ پی ایم ایل (ن) کے کچھ باوثوق ذرائع کی طرف سے مجھے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل معلومات ملی ہیں۔ ن لیگ کی طرف سے سندھ میں مناسب گورنر مقرر کرنے کیلئے مندرجہ ذیل خصوصیات رکھنے والوں پر غور ہو رہا ہے (1) ایسا شخص جس کے پاس پیشہ ورانہ اور ماہرانہ انتظامی پس منظر ہونا چاہئے۔ (2) کوئی ریٹائرڈ جنرل یا ریٹائرڈ بیورو کریٹ یا سیاستدان ہونا چاہئے (3) ایسے شخص کے پاس سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان کا نسلی پس منظر ہو، ایسے شخص کا ن لیگ یا ف لیگ کے ساتھ وابستگی ہو (4) بھلے کوئی متنازع سیاسی شخص ہو لیکن اگر اسے مختلف سیاسی پارٹیوں اور نسلی گروپوں کا اعتماد حاصل ہے مثلاً سندھی، مہاجر، پنجابی اور پٹھانوں کا اعتماد حاصل ہے تو اسے بھی سندھ کا نیا گورنر بنانے پر غور ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین