• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی نشریاتی ادارے برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (BBC) کا شمار دنیا کے صف اول کے نشریاتی اداروں میں ہوتا ہے جس کی نشریات پوری دنیا میں دیکھی جاتی ہیں۔ بی بی سی کا فلیگ شپ پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘ ایک مقبول ترین ٹی وی پروگرام ہے جس میں شرکت مہمان کیلئے بڑے اعزاز کی بات تصور کی جاتی ہے۔ بی بی سی آج کل تنقید کی زد میں ہے جس کی وجہ ’’ہارڈ ٹاک‘‘ کے میزبان اسٹیفن ساکر کا پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے انٹرویو میں جانبدارانہ رویہ اختیار کرنا تھا جس پر گزشتہ دنوں بی بی سی کو غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر یہ وضاحت کرنا پڑی کہ ’’ہارڈ ٹاک‘‘ کے میزبان کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے انٹرویو میں یہ واضح کرنا چاہئے تھا کہ یورپی یونین مبصرین کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہونے والے 2018 کے عام انتخابات کریڈیبل نہیں تھے کیونکہ یورپی یونین نے اپنی رپورٹ میں کہیں بھی انتخابات کو معتبر (Credible) قرار دیے جانے کا ذکر نہیں کیا۔‘‘

واضح رہے کہ یورپی یونین کے چیف آبزرور مائیکل گیلر نے پاکستان میں ہونے والے 2018 کے انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات کا جائزہ لینے کے بعد اپنی 91 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ان انتخابات کو کہیں بھی کریڈیبل قرار نہیں دیا تھا مگر ہارڈ ٹاک کے میزبان اسٹیفن ساکر اسحاق ڈار سے انٹرویو کے دوران یورپی یونین کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر مصر رہے کہ یہ انتخابات کریڈیبل تھے جبکہ حقیقتاً یورپی یونین نے اپنی پوری رپورٹ میں کہیں پر بھی انتخابات کے بارے میں کریڈیبل کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا تھا۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ انٹرویو پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے دیکھا اور انٹرویو نشر ہونے کے بعد کئی دنوں تک پاکستانی میڈیا پر زیر بحث رہا جبکہ حکومتی شخصیات نے بی بی سی کی جانب سے 2018 کے انتخابات کو ’’کریڈیبل‘‘ قرار دینے کو اپنی فتح سے تعبیر کیا جس پر اسحاق ڈار نے بی بی سی کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا اور گزشتہ دنوں بی بی سی کو انکوائری کے بعد اپنی ویب سائٹ پر یہ وضاحت شائع کرنا پڑی۔ مذکورہ انٹرویو میں اسحاق ڈار نے انتخابات میں غیر شفافیت کے علاوہ پاکستان کے ڈیپ اسٹیٹ ہونے کا ذکر بھی کیا تھا اور اس بارے میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی مثال دی تھی جنہوں نے پاکستان کو ڈیپ اسٹیٹ قرار دیا تھا۔

اسحاق ڈار کے انٹرویو کے حوالے سے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے علاوہ بی بی سی کو ماضی میں لیڈی ڈیانا سے کئے گئے انٹرویو پر بھی شاہی خاندان سے معذرت کرنا پڑی۔ انٹرویو کرنے والے پاکستانی نژاد برطانوی صحافی بشیر مارٹن پر الزام تھا کہ انہوں نے 1995 میں لیڈی ڈیانا اور اُن کے بھائی کو جعلی دستاویزات دکھاکر دھوکہ دہی سے انٹرویو کیلئے راضی کیا۔ مذکورہ انٹرویو میں لیڈی ڈیانا نے شہزادہ چارلس کی بے وفائی اور طلاق سمیت شاہی خاندان میں اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر کھل کر بات کی تھی۔ اس انٹرویو نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا تھا تاہم انٹرویو کے 2سال بعد 1997 میں لیڈی ڈیانا پیرس میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ گزشتہ برس لیڈی ڈیانا کے بھائی کی شکایت پر بی بی سی نے تفتیش کیلئے ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس کو متعین کیا جنہوں نے 20 مئی 2021 کو اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ لیڈی ڈیانا کو دھوکہ دے کر انٹرویو کیا گیا تھا جس کا قصور وار صحافی بشیر مارٹن اور بی بی سی انتظامیہ کو ٹھہرایا گیا۔ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد بی بی سی کو لیڈی ڈیانا کے بیٹوں شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری سے غیر مشروط معافی مانگنا پڑی جبکہ بشیر مارٹن نے بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے شاہی خاندان سے معافی مانگی اور ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تاہم انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اُن کے اس اقدام کو لیڈی ڈیانا کی موت سے جوڑنا درست نہیں۔

بی بی سی کے اعتراف سے اسحاق ڈار کا یہ موقف درست ثابت ہوگیا ہے کہ ’’ہارڈ ٹاک‘‘ کا میزبان متعصب تھا اور 2018 کے عام انتخابات شفاف اور قابل اعتبار نہیں تھے ، بی بی سی کایکے بعد دیگرے اپنے انٹرویوز پر معذرت سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی بی سی سے منسلک کچھ صحافی معتبر اور قابل اعتبار نہیں جو اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ گوکہ لیڈی ڈیانا کا دھوکے سے انٹرویو کرنے والے صحافی بشیر مارٹن نے خود پر لگنے والے الزامات ثابت ہونے پر معافی مانگتے ہوئے بی بی سی کی ملازمت سے علیحدگی اختیار کرلی ہے، ایسے میں اسحاق ڈار کا انٹرویو کرنے والے متنازع صحافی اسٹیفن ساکر کو بھی اپنے جانبدارانہ رویئے پر معذرت کرتے ہوئے ملازمت سے مستعفی ہوجانا چاہئے۔ اِن واقعات سے بی بی سی کی ساکھ یقیناً متاثر ہوئی ہے تاہم یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ ادارے نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے سینئر صحافی بشیر مارٹن کو ملازمت سے برخاست کردیا ہے۔ بی بی سی کے اس اقدام سے پاکستانی میڈیا کو بھی سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین