• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے بھائیو، میری بہنوں، میرے بچو، میرے بزرگو گواہ رہنا کہ میں نے کبھی بھی اویس مظفر ٹپی نام کے کسی شخص کے بارے میں آج تک اپنے قصے اور کہانیوں میں ذکر نہیں کیا ہے۔ کسی کا ذکر خیر آپ تب کرتے ہیں جب اس شخص کو آپ جانتے ہوں۔ اس شخص کے ساتھ آپ کی پہچان ہو، شناسائی ہو یا پھر اس شخص کے بارے میں آپ اندر کی باتیں جانتے ہوں۔ تب آپ اس شخص کا ذکر خیر اپنے قصے کہانیوں اور افسانوں میں کرتے ہیں، ورنہ نہیں۔ الیکشن جیت کر سندھ اسمبلی کا ممبر بننے سے پہلے میں نے اویس مظفر ٹپی کا نام تک نہیں سنا تھا۔ ان کا نام سننے کے بعد میں نے اپنے طور پر چھان بین کی، پتہ چلا کہ ٹپی صاحب ٹھٹھہ کے رہنے والے ہیں وہیں سے الیکشن جیت کر سندھ اسمبلی تک پہنچے ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، غریبوں اور مسکینوں کے ہمدرد، دکھی انسانیت کے خدمت گزار۔ بچپن سے وہ مچھیروں اور ملاحوں کے کام آتے رہے ہیں ان کے دکھ سکھ میں شامل رہے ہیں، ان کی خاطر مگرمچھوں سے لڑتے رہے ہیں، ٹھٹھہ میں ایک معمولی مکان میں رہتے ہیں۔ ان کی بے لوث خدمتوں کی وجہ سے ٹھٹھہ میں خوشحالی ہے اسکول ہیں،کالج ہیں، ایک انجینئرنگ یونیورسٹی ہے، ایک میڈیکل یونیورسٹی ہے، ایک آرٹس یونیورسٹی ہے، ایک لا کالج ہے، اسپتال ہیں، کلینک ہیں،اسٹیڈیم ہیں،کھیل کے میدان ہیں، لائبریریاں ہیں، پرفارمنگ آرٹس کیلئے تھیٹر اور آڈیٹوریم ہیں۔ اب جب کہ اویس مظفر ٹپی ٹھٹھہ کی نمائندگی کرنے کیلئے سندھ اسمبلی کے ایوان میں منتخب ہو کر پہنچ چکے ہیں، کچھ بعید نہیں کہ ٹھٹھہ شان و شوکت میں مغلوں کے دور کی یاد تازہ کر دے۔باون ٹیلیویژن چینل ایک ہی نوعیت کے پروگرام دکھاتے ہیں۔ ایک اینکر پرسن، مرد یا عورت، چار پانچ سیاستدانوں کو بلوا کر اسٹوڈیوز میں دھواں دار بحث کرتے ہیں جس میں مہمان کم اور میزبان زیادہ بولتے ہیں۔کبھی کبھار وہ ایک ہی سیاستدان کو بلواتے ہیں اور ان سے بات چیت کرتے ہوئے بحث میں پڑ جاتے ہیں۔ایسے ہی ایک پروگرام میں ایک اینکر پرسن نے اویس مظفر ٹپی کو بلایا، ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اینکر پرسن یا انٹرویو لینے والے نے ٹپی صاحب سے پوچھا ”آپ امر جلیل کو جانتے ہیں؟“ٹپی صاحب نے جواب دیا ”مجھے نہیں معلوم امر جلیل کون ہے!“ انٹرویو لینے والے نے جب ٹپی سے کہا کہ امر جلیل آپ کے بارے میں لکھتے رہے ہیں کہ وہ آپ کے پرانے دوست ہیں اور آپ دونوں صدر کراچی کی سینماؤں میں بلیک پر ٹکٹ بیچتے تھے تب ٹپی نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
آپ اخبار کے پرانے پرچے کھول کر دیکھ لیں۔ کیا مجال کہ میں نے بھولے سے بھی ٹپی کا ذکر خیر اپنے قصے اور کہانیوں میں کیا ہو۔ یہ میرا چیلنج ہے آپ شرط لگا سکتے ہیں۔ شرط بھی چھوٹی موٹی نہیں ایک کے ایک لاکھ!لوگ اکثر ملتے جلتے ناموں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اس کے بعد کئی روز تک وہ کچھ نہیں کھاتے۔ میں نے قصے کہانیوں میں گپی کا ذکر کیا ہے اور بار بار کیا ہے مگر ٹپی کا ذکر میں نے ایک بار بھی نہیں کیا ہے۔ ویسے بھی میں جب سرے سے ٹپی کو جانتا تک نہیں تو پھر اس کا ذکر اپنی کہانیوں میں کیسے کر سکتا ہوں؟ ناممکن ۔ بات بس اتنی ہے کہ گپی اور ٹپی نام ملتے جلتے ہیں۔ کبھی تو ناموں میں اس قدر مماثلت ہوتی ہے کہ لوگ حیران ہونے کے بعد پریشان ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ پریشان ہونے کے بعد اپنے بال نوچ لیتے ہیں جیسے رحمن ڈکیت اور رحمن ملک۔ ٹپی کا پورا نام ہے اویس مظفر ہاشمی ٹپی اور گپی کا پورا نام ہے درویش ظفر کاظمی گپی! ایسے میں غلط فہمی کو امکان سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے قصے کہانیوں میں جب بھی گپی کا ذکر کیا پڑھنے والوں نے یہی محسوس کیا کہ میں ٹپی کا ذکر کر رہا ہوں۔ حالیہ چھان بین کے بعد میں نے محسوس کیا ہے کہ ٹپی اور گپی کے درمیان ناموں کے مماثلت کے علاوہ کچھ بھی ایک جیسا نہیں۔ دونوں کی عادات اطوار مختلف ، رہن سہن مختلف، بول چال مختلف، دوست احباب مختلف، نشست و برخاست یعنی اٹھنا بیٹھنا مختلف۔ کچھ بھی تو ٹپی اور گپی میں مشترک نہیں ہے۔ گپی فلموں کا دلدادہ اور ٹپی کو جب دیکھو شاہی مسجد ٹھٹھہ میں سربسجود۔
گپی مجھے جانتا ہے، پہچانتا ہے۔ یہی سوال اینکر پرسن نے ٹپی کے بجائے گپی سے پوچھا ہوتا کہ کیا تم امرجلیل کو جانتے ہو تو گپی میرے تمام راز و نیاز مشکوک وممنوع بیاض کھول کے رکھ دیتا۔ عید کے روز عیدگاہ سے نمازیوں کے نئے جوتے چرانا اور جہانگیر پارک صدر کے باہر فٹ پاتھ پر رکھ کر بیچنا ہمارا سالانہ محبوب مشغلہ ہوتا تھا۔ صدر کے دس پندرہ سینماؤں میں اگر نئی انگریزی فلم لگتی تو فرسٹ ڈے فرسٹ شو کے ٹکٹ ہم منہ مانگی قیمت پر بلیک میں بیچتے تھے۔ بلیک میں بکنے والے ٹکٹوں کے ملٹی ملین کاروبار کے گرو گگنیش جھانپڑیا ہر ماہ بیسٹ پرفارمنس سرٹیفکیٹ گپی اور میرے نام جاری کرتے تھے۔ اقلیتوں کی سیٹ پر منتخب ہو کر گروگگنیش جھانپڑیا قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے، بڑے سخی تھے، دیاوان تھے۔ ایک مرتبہ گرو نے گپی اور مجھے بزنس ٹرپ پر سنگاپور بھیجا تھا۔ ہمیں معلوم کرنا تھا کہ سنگاپور میں سینماؤں کے ٹکٹ کیسے بلیک ہوتے ہیں۔ کاروباری کھوج لگانے سے پہلے گپی اور میں نے سنگاپوری چائے پینے اور سنگاپوری بریانی کھانے کے لئے سنگاپور کا چپہ چپہ چھان مارا۔ مگر ہمیں کہیں سنگاپوری چائے ملی نہ بریانی۔ اس کے بعد ہم کاروباری کام سے لگ گئے۔ پتہ چلا کہ سنگاپور میں فلموں کے ٹکٹ بلیک نہیں ہوتے سبب معلوم کیا تو پتہ چلا کہ سنگاپور میں کوئی گروگگنیش جھانپڑیا نہیں بستا۔واپس آکر یہ دلدوز خبر ہم نیگروگگنیش جھانپڑیا کو سنائی تو انہوں نے گپی اور مجھے ملازمت سے نکال دیا تھا۔ اس کے بعد گپی اور میں نے بوہری بازار میں ڈھابہ لگایا اور سنگاپوری چائے اور سنگاپوری بریانی بیچنے لگے۔
میرے کہنے کا مطلب ہے کہ گپی اور ٹپی دو مختلف شخص ہیں۔گپی میرا دوست ہے ٹپی میرا دوست نہیں ہے۔ٹپی کسی کا بھی منہ بولا یا گود لیا بھائی نہیں ہے جبکہ گپی منہ بولا اور گود لیا بھائی ہے کھپی کا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ کھپی کون ہے؟ کھپی پاکستان میں کھپ ڈالنے والوں کا باوا آدم ہے۔ گپی اس کا گود لیا اور منہ بولا بھائی ہے۔یہ اعزاز بیچارے ٹپی کے نصیب میں نہیں ہے۔ ٹپی بیچارہ اللہ میاں کی گائے ہے۔
مجھے امید ہے کہ وضاحت کے بعد میرے بھائی، بہنوں، بزرگوں اور بچوں کی غلط فہمی دور ہو گئی ہو گی۔ گپی اور ٹپی دو الگ الگ شخص ہیں میں نے اپنے قصے کہانیوں میں گپی کا ذکر کیا ہے۔ ٹپی کا ذکر کبھی نہیں کیا ہے۔
تازہ ترین