• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہو رہا،بلکہ بہت خراب، بہت ہی خراب ہو رہا ہے۔بم دھماکے انتہا پسند کررہے ہیں، معصوم لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں، جن کا کسی بھی معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ پشاور کی مسجد میں عبادت کرنے گئے تھے کہ خود کش حملہ آور کا نشانہ بن گئے، خاک وخون میں نہلادئے گئے۔کہیں نہ کہیں اس طرح کی بہیمانہ کارروائی کردی جاتی ہے۔ کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔ اور اِدھر کراچی میں روزانہ لاشیں گرائی جا رہی ہیں، سیاسی، مذہبی جماعت کے کارکنوں کی، ہمدردوں کی، عام لوگوں کی۔ عام انتخابات کے وقت ایک ذراوقفہ آیا تھا، ٹارگٹ کلنگ کچھ کم ہو گئی تھی۔ پھر وہی خوفناک دل ہلا دینے والے مناظر ہیں ۔ گیارہ مئی کے بعد سے اب تک کوئی چار سو کے لگ بھگ لوگ مار دئیے گئے ہیں ،عورتیں اور بچے بھی نہیں بخشے گئے،منتخب نمائندے بھی نشانہ بنائے گئے۔متحدہ قومی موومنٹ کے رکنِ سندھ اسمبلی ساجد قریشی اور ان کے جواں سال صاحبزادے وقاص قریشی اسی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اور یہ بھی پشاور کی مسجد میں خود کش حملے والے دن ہی ہوا۔روز ہی ہو رہا ہے،روز ہی لاشیں گرائی جا رہی ہیں،بم مارے جا رہے ہیں۔یہ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ خراب ہو رہا ہے، بلکہ بہت خراب ۔ اوراس سے زیادہ خراب یہ ہو رہا ہے کہ کسی بھی سطح پر وہ موثّر کارروائی نظر نہیں آرہی جو ان افسوسناک،تکلیف دہ واقعات کو روک سکے۔صوبائی حکومت کے دعوے ہیں جو گزشتہ پانچ سال سے کئے جا رہے ہیں۔ان ہی کی تکرار اب بھی ہے۔وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کہا ’ٹارگٹ کلرز کو قانون کے شکنجے میں لا کر دم لیں گے‘۔ اس دعوے کا کوئی مطلب ہے؟ ٹارگٹ کلرز تو آزاد گھوم رہے ہیں، اور پچھلے کافی عرصہ سے ، آپ کی پچھلی حکومت کے دوران بھی، اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف رہے اور اب بھی ہیں، بلا روک ٹوک ۔جہاں ان کا جی چاہتا ہے گولیاں برساتے ہیں، اور فرار ہوجاتے ہیں۔ اب تک کتنے پکڑے گئے؟ چند! اور وہ بھی پولس کا بس دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔کتنوں کو سزا ہوئی؟ اعدادوشمار حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ صدمہ البتہ ہوتا ہے کہ تحقیقات خام اور مقدمہ خام تر۔ عدالت ملزمان کو چھوڑ دیتی ہے۔ یونہی ہوگا۔ جس ملزم کے بارے میں پولس کہتی ہے وہ دس افراد کے قتل میں ملوث تھا، اس پر مقدمہ صرف غیر قانونی ہتھیار رکھنے کا بنتا ہے۔باقی اضافے بعد میں ہوتے بھیِ ہیں،وہ بھی بے دلی کے ساتھ۔ مجرم پھر آزا د ہوجاتا ہے، پھر واردات کرتا ہے، پھر لاشیں گراتا ہے، گھر اجاڑتا ہے۔ پولس کا اپنا ایک موقف ہے، خاصا درست بھی۔ گواہوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا کوئی گواہی دینے نہیں آتا۔ الزام ثابت کیسے ہو؟ملزم کو سزا کس بنیاد پر ملے؟ گواہوں کو تحفّظ فرہم کرنے کا قانون اب تک نہیں بن سکا۔وہ جو بنیادی کام ہیں، دہشت گردی ختم کرنے کے، وہ نہیں ہو رہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ وفاق اور صوبے ایک بیان پر الجھے ہوئے ہیں۔’وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے حکومت سندھ کوامن و امان ٹھیک کرنے کیلئے ایک ماہ کا الٹی میٹم دے دیا ہے‘۔پتہ نہیں دیا یا نہیں، مگر اس پر ہنگامہ اٹھا دیا گیا۔ یہ صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے۔ چوہدری نثار نے تردید کردی۔ مگر اس بیان بازی سے کیا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ختم ہو گئی؟ کم بھی نہیں ہوئی۔ ہو ہی نہیں سکتی۔ کس نے سوچا اصل مسئلہ کیا ہے؟ امن و امان کی بحالی، ملک کی اس معاشی شہ رگ میں،ملک کے اس سب سے بڑے شہر میں، اس منی پاکستان میں لوگوں کے جان و مال کا تحفظ، یہ بنیادی کام ہے۔یہ کام حکومت سندھ کرے تو بہت اچھا۔مگر کرے تو۔گزشتہ پانچ سال میں اس نے کیا کیا؟ سب کے سامنے ہے۔ اس کیلئے اگر وفاق کی مدد لی جا سکتی ہے توکیا حرج ہے؟ ان کے پاس زیادہ وسائل ہیں بہت سی خفیہ ایجنسیاں ان کے اختیار میں ہیں۔ اور یہ کام امن و امان کی بحالی کا،ایسا ہے کہ اسے اولین ترجیح سمجھنا چاہئے۔ خفیہ ایجنسیاں اس میں بہت مدد کر سکتی ہیں، اگر سیاست سے، اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر کام کریں۔ مل کر یہ کام ہو سکتا ہے۔اگر ہو جائے تو سہرا کسی کے بھی سر بندھے ، بھلا ملک کا ہوگا۔ مگرفی الحال تو بحث مباحثے، بلا وجہ کی الزام تراشی اور جوابی الزام میں شہر کا ،ملک کا نقصان ہو رہا ہے،ہوتا جا رہا ہے۔
شہر کے یہاں کے باسیوں کے نقصان پرکم ہی توجہ ہے۔متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی قیادت ذرا غور کرے۔ وہ اس شہر کی نمائندہ جماعت ہے۔ اس شہر کے مفادات کا خیال رکھنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مانا کہ اس کے ایم پی اے کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا،وہ ایک شریف آدمی تھے۔مانا کہ یہ ایم کیو ایم کا بڑا نقصان ہے۔اس پر احتجاج بھی بجا، مطالبہ بھی درست کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔مگر ہڑتال سے کس کا نقصان ہوتا ہے؟ ایم کیو ایم کی قیادت کو سوچناچاہئے۔ کاروبار بند ہو تو وہ کون ہیں جن کا روزگار متاثر ہوتا ہے؟ جن کی روٹی چھن جاتی ہے؟ اکثریت ایم کیوایم کے حامیوں کی ہوتی ہے۔ جانی نقصان دہشت گرد کر رہے ہیں،ہڑتال سے مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ قوت کا اظہار ہے تو ایم کیو ایم کی قیادت سے بہتر کون جانتا ہے کہ اسے اس اظہار کی ضرورت نہیں ہے۔اس شہر کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثر نشستیں اس کے پاس ہیں،اگر انتخابی حوالے سے گفتگو کریں ۔یوں اس حوالے کے بغیر بھی اس کی قوت مسلّمہ ہے۔ احتجاج بے شک اسے کرنا چاہئے۔ہڑتال مگر نہیں۔اس کے بجائے ایم کیو ایم قاتلوں کی گرفتاری،ان کے بارے میں اطلاعات حاصل اور فراہم کرنے اور ان کے خلاف مقدمات کی صحیح پیروی کے لئے اپنی قوت استعمال کرے ، تو مسئلہ کا کچھ تدارک تو ہو سکے گا، ہڑتال میں نقصان اس کے اپنے لوگوں کا نقصان ہے ، اس کا اپنا نقصان ہے۔
ایم کیو ایم کو ایک ذرا ٹھنڈے دل سے کچھ اور معاملات پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ اس کے پاس دانشوروں کی ایک بڑی ٹیم ہے،باصلاحیت لوگ اس میں شامل ہیں،وہ بتا سکتے ہیں کسی بھی معاملے پراقوام متحدہ کے سامنے احتجاج کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ عام حالات میں،یعنی پاکستان کے موجودہ حالات میں، اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ٹارگٹ کلّنگ اس ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس میں حکومت ملّوث نہیں ہے۔ روکنے میں ناکام ضرور ہے۔ مگر اقوام متحدہ کے سامنے احتجاج؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ احتجاج اُس ملک کے لوگ کرتے ہیں جہاں حکومت براہ راست انسانی حقوق کی پامالی میں ملّوث ہوتی ہے، مثلاً، برما کے باشندے احتجاج کرتے ہیں، جہاں طویل عرصے سے آمریت نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے لوگ کرتے ہیں جس پر بھارت نے قبضہ کیا ہوا ہے، اور ظلم و ستم کے پہاڑ بے گناہ کشمیریوں پرتوڑے ہوئے ہیں ۔ اُس ملک کے لوگ اس طرح کا احتجاج کرتے ہیں جہاں حکومت پر بین الاقوامی دباؤبڑھانا ہوتا ہے، انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف، حکومتی ظلم و ستم کے خلاف۔ امن و امان کی بحالی، خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف، ایم پی ا ے اور کارکنوں اور عام لوگوں کے قتل کے خلاف تحریک،جدوجہد ملک کے اندر ہو سکتی ہے، اسے ملک کے اندر ہی رہنا چاہئے۔ قائد اعظم کے مزار پر احتجاج اقوام متحدہ کے سامنے احتجاج سے زیادہ مناسب اور موثّر ہے۔ملک سے باہر اس طرح کی سرگرمیاں ، ملک کی ایک ایم کیو ایم جیسی معتبر ،تیسری یا چوتھی بڑی جماعت کے شایان شان نہیں ہیں۔آپ کا نقصان ہو رہا ہے،اس کا حل تلاش کریں، ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے کے لئے کوشش کریں، مل کر، ساتھ بیٹھ کر، گھر کے اندر۔
تازہ ترین