• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے اتوار کی بات ہے کہ لاہور کے ایک ایلیٹ علاقے جہاں پر لوگ دولت حاصل کرنے کے لئے ہر کام کو جائز اور اپنا حق اولین سمجھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رمضان میں مذہبی فریضہ بھی پوری یکسوئی کے ساتھ ادا کرتے ہیں، جو پورا ماہ اپنے گھروں پر سینکڑوں لوگوں کو روزہ رکھواتے ہیں، شام کو افطاری کراتے ہیں اور چاند رات پر مجرا بھی کراتے ہیں۔ ان کے بچے کیا کرتے ہیں، ان کے ماں باپ کو پتہ بھی ہو تو آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ پچھلے اتوار کی بات ہے کہ میں اس ایلیٹ علاقے کے ہسپتال کی ایمرجنسی میں کسی کام سے بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان کو ایک صحتمندلڑکی جس کی عمر28سال تھی۔(نام نہیں لکھ رہا)لے کرآئی۔نوجوان بے ہوش تھا اور بالکل بے حس تھا،لیڈی ڈاکٹر اس خاتون سے پوچھ رہی تھی کہ اس نے کیا کھایا ہے، خاتون نے کہا کہ خالی پیٹ ہے جبکہ ڈاکٹر ز ایک تو اس کیس کو میڈیکل لیگل کہہ رہے تھے دوسرا وہ اس نوجوان کا معدہ واش کرنا چاہتے تھے جبکہ خاتون معدہ واش کرانے کے حق میں نہیں تھی۔ دوسری طرف خاتون کسی کو کہہ رہی تھی کہ تم نے اس کے گھر والوں کو بالکل نہیں بتانا اور اس کے موبائل پر کوئی فون آئے وہ بھی نہیں سننا۔ قصہ مختصر ڈاکٹروں نے نوجوان کی جان بچانے کے لئے تمام اقدامات کئے اور وہ نوجوان ہوش میں آگیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کو ابھی ہم نے کچھ دیر رکھنا ہے مگر خاتون کا اصرار تھا کہ ہمیں جانے دیں ۔ بہرحال بعد میں لیڈی ڈاکٹر نے ایک تحریر لکھوا کر کہ وہ اپنی ذمہ داری پر اس کو لے کر جارہی ہے جانے کی اجازت دے دی وہ نوجوان کو لے کر فوراً وہاں سے چلی گئی۔
اس ہسپتال میں میں نے پچھلے کئی برس میں کئی مرتبہ اس نوعیت کے کیس دیکھے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ہی ایسے واقعات دیکھنے کو مجھے ملے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جن کی یہ نسلیں ہیں اور ہم کیسی نسلیں پیدا کررہے ہیں ،کیا یہ اقبال کے شاہین ہیں؟ جو ساری رات ڈانس پارٹیوں اور مجروں میں مشغول رہتے ہیں اور جب حالت غیر ہوتی ہے تو ہسپتالوں کے ایمرجنسی میں آکر نشے کی حالت میں ڈاکٹروں اور نرسوں کوگالیاں دیتے ہیں۔ کسی ماں باپ نے اپنے بچوں سے پوچھا کہ تم رات رات بھر کہاں رہتے ہو؟ وہ ماں باپ بھلا کیا پوچھیں گے۔ وہ ماں باپ خود رات رات بھر باہر رہتے ہیں۔ انہوں نے کیا تربیت کرنی ہے۔ آج بڑے میاں صاحب اور چھوٹے میاں صاحب اپنی تقریروں میں علامہ اقبال کے افکار پر بہت زور دے رہے ہیں۔یہ نوجوان جو کل کو اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے کیا وہ اسلام اور علامہ اقبال کے افکار کی تصویر بن سکیں گے؟جو نوجوان پندرہ برس کی عمر میں نشے ،شراب اور دیگر برائیوں میں مشغول رہنے والوں سییہ توقع کریں گے کہ وہ حرام نہیں کھائے گا۔ اس ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے محنت کرے گا۔ سفید کپڑے پہننے سے بھی کبھی دل دماغ کا گند صاف ہوا ہے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ہر تقریر میں علامہ اقبال کے افکار کا ذکر کرتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے مگر عملاً اقبال کے افکار کہاں ہیں؟ عملاً اسلام کی زندہ جاوید روایات کہاں ہیں؟ پچھلے دنوں لاہور میں ایک تقریب ہوئی، جس کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تھے اور اس کا اہتمام ممتاز بزنس مین صدر الدین ہاشوانی نے کیا تھا ۔ اس تقریب کی خاص دو باتیں تھیں ایک تو یہ تھی کسی وزیر اعلیٰ نے پہلی مرتبہ انتہائی خوبصورت اور قیمتی فانوس کا افتتاح کیا۔ دوسرے صدر الدین ہاشوانی نے لوگوں کے انتہائی نادر اور نایاب پینٹگز کے نمونے پبلک کیلئے لگادئیے۔ یہ نادر پینٹگز صدر الدین ہاشوانی کے گھر پر برس ہا برس سے لگی ہوئی تھیں لیکن انہوں نے یہ سوچا کہ یہ پینٹگز اب نوجوانوں کے لئے لگادی جائیں اور نوجوان علامہ کے اشعار سے رہنمائی حاصل کریں۔ پینٹگز کو اگر دیر تک محفوظ رکھنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اوپر شیشے کا فریم لگایا جائے تاکہ یہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوسکیں۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور صدر الدین ہاشوانی دونوں کو چاہئے کہ علامہ اقبال کے کلام اور افکار سے نوجوان نسل کو روشناس کرانے کے لئے تعلیمی اداروں میں اقبال کے نام پر سوسائٹیز کریں۔ کلام اقبال سے بھرپور استفادہ کیا جائے اس سلسلے میں بڑے بڑے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اقبالچیئرکو قائم کیا جائے آج ہمارے ملک میں جو دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے اس کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم علامہ اقبال کے افکار کو عام کریں ہم نے جو کچھ زیارت میں کیا ،کیا وہ اقبال کے افکار کی نفی نہیں تھا؟ کیا کوئی اپنے ملک کے بانی کی یادگاروں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے؟یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم نے علامہ اقبال  کے پیغام کو اپنی نوجوان نسل تک پہنچایا ہوتا تو آج دہشتگردی اور کئی دیگر برائیاں ختم ہوچکی ہوتیں۔اس تقریب میں اگرچہ میاں شہباز شریف نے بہت خوبصورت اشعار پڑھے اور علامہ اقبال کا کلام بھی سنایا لیکن ایک شعر بہت خوب تھا۔
خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہئے
خوشبوؤں کا نگر کیسے آباد ہوگا اور یہ نظام زر کون برباد کرے گا؟ غریب عوام کے خواہشوں کے نگر کو آباد کون کرے گا؟ میاں صاحب حاکم وقت آپ ہیں۔ پالیسی ساز آپ ہیں، انقلاب لانے والے آپ ہیں، نظام زر کو بنانے اور برباد کرنے والے بھی آپ ہوسکتے ہیں تو پھر دیر کس بات کی؟ آپ علامہ اقبال کے پیغام کا بار بار ذکر کررہے ہیں تو پھر اقبال کی تعلیمات کو عام بھی تو آپ کریں گے۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں کلام اقبال، اقبال کے فلسفہ اور تعلیمات کو نوجوان نسل تک پہنچانے کے لئے بھی آپ ہی تو کام کرسکتے ہیں۔ صدر الدین ہاشوانی جن کے وسائل بہت ہیں وہ اس کا م کو بڑے احسن انداز میں آگے بڑھاسکتے ہیں ۔ لاہور شہر میں علامہ اقبال کے نام پر ایک آرٹ گیلری بنائی جائے جہاں پر کلام اقبال پر جن مصوروں نے آج تک کام کیا ہے۔ ان کے فن پارے رکھے جائیں، ہر سال اقبال ڈے پر کلام اقبال پر مبنی فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیا جائے۔ سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کلام اقبال پڑھنے کے مقابلے منعقد کرائے جائیں۔ مقالہ جات لکھوائے جائیں آخر میں یہ کہوں گا کہ نوجوان نسل بڑی تیزی کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے بعض والدین خود بھی عجیب لوگ بن چکے ہیں اور ان کی نسلیں بھی عجیب ہوچکی ہیں، پاکستان میں سات کروڑ سے زیادہ نوجوان ہیں۔ دیہات میں نوجوانوں کے لئے کوئی مصروفیت نہیں نوجوانوں کو مفید کاموں پر لگانے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔میاں شہباز شریف نے جن پانچ خوبصورت فانوس کا افتتاح کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ پورا ملک اس فانونس کی طرح روشن ہو جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ صرف آپ نہیں آپ کی پوری ٹیم محنت کرے جس کا تقاضا یہ ملک کر رہا ہے آپ ترکی کی بار بار بات کرتے ہیں اور یہ فانوس بھی ترکی کا بنا ہوا ہے ترک قوم کو اچھے لیڈر ملے تھے تب ہی وہ ملک آج پوری دنیا میں فانوس کی طرح چمک رہا ہے دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اب ناگا پربت پر آنے والے سیاحوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا سارے ملک کا پوری دنیا میں کیا امیج بنا؟ کسی کو معطل کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
تازہ ترین