• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم پاکستان کی سفید بھیڑیں ہیں، ہم زندگی کے ہر ہرمیدان سے وابستہ ہیں۔ ویسے تو ہم بہت ہی اچھی بھیڑیں ہوا کرتی ہیں لیکن پاکستان میں ہم خواہ مخواہ بدنام ہیں۔جسے دیکھو منہ اٹھاکر ہمیں بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتا ہے۔ ہماری طرح آپ نے بھی یقینا پڑھا ہو گا، پڑھا نہیں تو سنا ضرور ہو گا کہ چند کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ہم انہی کالی بھیڑوں کی وجہ سے بدنام ہیں۔سچی بات ہے، ہمیں ان کالی بھیڑوں سے بہت ہی ڈر لگتا ہے۔ ویسے تو تمام بھیڑیں ایک جیسی ہوتی ہیں، وہی لمبا سامنہ، وہی لٹکے ہوئے کان ، وہی پتلی پتلی ٹانگیں، وہی ڈھلکا ہوا پیٹ اور وہی ”میں،میں، میں“ لیکن یہ بدبخت فوراً پکڑی جاتی ہیں، سب کو صاف نظر آ جاتی ہیں۔اللہ ہم سب سفید بھیڑوں کو ان کالی بھیڑوں سے محفوظ رکھے۔
ہمیں سیاست کا میدان بہت پسند ہوتا ہے، وہاں کی ہری ہری گھاس کا تو سوچ کر بھی منہ میں پانی آنا شروع ہو جاتا ہے۔کھانے کو اتنا وافر ہوتا ہے کہ ہم بہت جلد فربہ ہو جاتی ہیں اور ہماری چال ہی بدل جاتی ہے۔”عزت“، نام ، شہرت ، پیسہ ، کیا نہیں ہے اس میدان میں ۔ بس دو ”ا“ اور ایک ”آ“ کی مدد شاملِ حال رہے تو عروج ہی عروج، اگر کبھی ہمارے اوپر زوال بھی آ جائے تو مزا عروج کا ہی آتا ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ناراض ہو جائے تو پھر ۔ اللہ نہ کرے!!دادی بھیڑ کہا کرتی تھیں کہ گندی بات کبھی منہ سے نہیں نکالتے۔کسی بھیڑ میں تھوڑی سی بھی عقل ہو اور احتیاط کا دامن تھامے رکھے تو اچھا بھلا کیرےئر ہے سیاست میں۔بیوروکریسی (کان آگے کریں …دونوں طرح کی) بھی سیاست سے کچھ کم نہیں بلکہ کچھ بڑھ کے ہی ہو گی۔میرے خیال میں سفید بھیڑیں اسی میدان میں سب سے زیادہ سیر ہوتی ہیں۔ یہاں تو لہلہاتے کھیت ہوتے ہیں، تاحدِ نظر سبزہ، بیسن ملے پانی کی نہریں…ہائے !! کیا یاد کرا دیا۔ ویسے بہت سی سفید بھیڑوں کا خیال ہے کہ اب پہلے والی بات نہیں رہی۔ ناشکری ہیں، ان سفید بھیڑوں کو باہر کے حالات نظر نہیں آتے،نفسا نفسی چل رہی ہے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کارپوریٹ فضائیں اور اےئرکنڈیشنر کے بڑے بڑے پلانٹوں کی یخ ہوائیں بھی ہمیں بہت مرغوب ہیں۔ یہ میدان بھی آج کل سفید بھیڑوں میں بہت ”ان“ ہے۔ یہ میدان دراصل سطح مرتفع جیسا ہوتا ہے۔ پتھریلی اور بنجر زمینوں سے شروع ہوتا ہے اور بلند ہوتے ہوتے ہموار سطح تک پھیلا ہوتا ہے،جیسے جیسے بلندی کی طرف جاتے جائیں، ہریالی بڑھتی جاتی ہے اور سفید بھیڑوں کی سفیدی بھی۔ ہم جی بھر کر کھاتی ہیں،صرف ایک مجبوری ہوتی ہے کہ یہاں ہر بھیڑاکیلے اکیلے اپنا پیٹ نہیں بھر سکتی بلکہ یہاں”بوفے“ سسٹم ہوتا ہے، کارپوریٹلاء، کنسلٹنسی فرمز، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرمزاور ریگولیٹری باڈیز والی سفید بھیڑوں کے ساتھ مل کر کھانا پڑتا ہے۔کاروبار اور انڈسٹری کے سرسبز میدان بھی سفید بھیڑوں کا دل لبھاتے رہتے ہیں، یہاں کی سفید بھیڑوں کو دیکھ کر تو باقی بھیڑیں بھی چھینکیں مارنا شروع کر دیتی ہیں۔اس میدان کی سفید بھیڑوں کی ایک خاصیت ہوتی ہے کہ پہیے گھمانے بلکہ پہیے لگانے کی ماہر ہوتی ہیں۔کھانے پینے کے لحاظ سے یہ میدان جنت سے کم نہیں ۔ یہاں نرم اور ہری گھاس کے ساتھ ساتھ میٹھی میٹھی جڑی بوٹیاں اور بھیگے ہوئے سفید چنے بھی وافر ہوتے ہیں ، سفید بھیڑوں کو صرف کھانے کا سلیقہ آنا چاہئے کیونکہ یہاں مال پانی سرپلس میں ہوتا ہے ، اس لئے اس میدان کی سفید بھیڑیں باقی سارے اہم میدانوں میں نذرانے بھیجتی رہتی ہیں اور اچھی بھیڑیں بن کے رہتی ہیں ، اسی میں عافیت ہے۔
ویسے تو اور بھی بڑے اہم اور قابلِ ذکر میدان ہیں جن کی تفصیل بتائے بغیر ساری کہانی ادھوری ہی رہے گی لیکن ان میدانوں میں اس بہار کے موسم میں ایمسٹرڈیم کے میدانوں والی سرخ گلِ لالہ کی لمبی اور خوبصورت کیاریاں قطار اندر قطار بچھی ہوئی ہیں، اس موسم میں ان خوبصورت سرخ لکیروں کو پھلانگنا کوئی اتنا بھی ضروری نہیں، کہیں سارے موسم کا مزا ہی کِرکرا نہ ہو جائے۔ آپ نے پنجابی کہاوت تو سنی ہو گی کہ ”مجھاں مجھاں دیاں بہناں ہوندیاں نیں“ یعنی بھینسیں ، بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں، ہم نے بھی سنی ہوئی ہے۔ ہمارے خیال میں پنجابی کی اس کہاوت میں کالی اور بھدی بھینسوں کی جگہ سفید اور خوبصورت بھیڑوں کو ڈال دینا چاہئے۔ یہ کہاوت کتنی اچھی لگے گی کہ ”سفید بھیڑیں ، سفید بھیڑوں کی بہنیں ہوتی ہیں“ اور ہے بھی اتنی بڑی سچائی۔ سفید بھیڑیں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کسی بھی جگہ سفید بھیڑیں مشکل میں ہوں ، دوسری سفید بھیڑیں اپنا پورا زور لگا دیتی ہیں اور انہیں مشکل سے نکال لیتی ہیں۔یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک میدان کی سفید بھیڑیں دوسرے میدان کی سفید بھیڑوں کی تکلیف پر خاموش بیٹھی رہیں۔ہاں مگر کالی بھیڑوں سے ہماری کسی طرح نہیں بنتی۔ یہ کالی بھیڑیں ایک تو خود بھی کالی قسمت والی ہوتی ہیں اور ہمارے لئے بھی دردِ سر بنی رہتی ہیں۔ان کی بدبختی پر ہمیں کبھی کبھار ترس بھی بہت آتا ہے،آخر ہوتی تو ہم میں سے ہی ہیں ناں!!لیکن ہم چاہیں بھی تو کتنی دیر ان کو اپنے ریوڑ میں چھپا کر رکھ سکتی ہیں۔کبھی نہ کبھی تو ان کے بھاگ پھوٹنے ہی ہو تے ہیں کیونکہ برائی میں بھی خیر کا پہلو ہوتا ہے، اس لئے ہمیں کالی بھیڑوں کا ایک فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔ ہم سفید بھیڑیں، ہر چیز ان کے گلے میں ڈال کر خود دودھ دھلی اور اجلی سفید بھیڑیں بن جاتی ہیں۔کالی بھیڑیں دراصل ہمارے لئے ایک ڈھال کا کام کرتی ہیں۔ جب ہر کوئی یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ لیکن چند کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں “ تو ہم سکھ کے لمبے لمبے سانس لے رہی ہوتی ہیں۔اللہ ہر سفید بھیڑ کو کالی بھیڑوں کے انجام سے محفوظ رکھے!!
تازہ ترین