• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاں تو فیشن چل نکلا ہے کہ جو اپنے آباوٴاجداد سے جس قدر لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے‘ اتنا ہی بڑا دانشور کہلاتا ہے جو جس قدر تندہی سے اپنے اسلاف کو جھٹلاتا اور تعریض و تنقید کی گرد اُڑاتا ہے اتنا ہی نامور ہوتا جاتا ہے اس لئے مسلمانوں کو دھرتی پر بوجھ ثابت کرنے کے لئے ”دانش گردی“ کی ایک لہر چل پڑی ہے۔ آئے روز کوئی مصرع اٹھاتا ہے‘ تم نے خودکش حملوں کے علاوہ کوئی چیز ایجاد کی ہو تو بتاوٴ۔ جواب آنے سے پہلے ہی اس کا ہمنوا ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے گرہ لگاتا ہے‘ تم تو کیا تمہاری پوری تاریخ ہی قتل و غارت گری اور عیاشیوں سے بھری پڑی ہے، تمہارے آباوٴ اجداد بھی ایسے ہی جاہل اور گنوار تھے۔ کوئی تیسرا ابن الوقت اٹھتا ہے اور بات آگے بڑھاتا ہے‘ تم یورپ کے خلاف بات کرتے ہو تو ان انگریزوں کے بنائے ہوئے کیمرے سے تصویریں نہ بناوٴ‘ ان کے تراشیدہ جہازوں میں سفر نہ کرو‘ ڈسپرین تک تو بنا نہیں سکتے تم‘ ہر شے کے لئے ان کے محتاج ہو… مگر مجھ ایسا طالب علم غیر جانبداری سے عہد رفتہ کے تاریخی حقائق پلٹ کر دیکھتا ہے تو امت مسلمہ کی عظمت و سطوت کے جلترنگ بج اٹھتے ہیں ‘ تمام تر سائنسی ترقی ان مسلمانوں کی مرہون منت دکھائی دیتی ہے جنہیں یہ دانش گرد بدو کہتے ہیں وہ کیمرہ جس کے روبرو مسلمانوں پر طنزو استہزاء کے تیر چلائے جاتے ہیں یہ میرے اسلاف نے ایجاد کیا۔ یونانیوں کا خیال تھا ہماری آنکھوں سے لیزر کی طرح شعاعیں نکلتی ہیں جب یہ شعاعیں کسی چیز پر پڑتی ہیں تو وہ دکھائی دیتی ہے۔ 10 ویں صدی کے نامور ماہر بصریات ابن الہیشم جنہیں بیک وقت ریاضی‘ فلکیات اور طبعیات پر بھی عبور حاصل تھا انہوں نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ شعاعیں دراصل اجسام سے نکلتی ہیں اور آنکھوں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس اصول کی بنیاد پر ہی دنیا کا پہلا پن ہول کیمرہ ایجاد ہوا۔ لفظ کیمرہ عربی کے لفظ قمارہ سے مستعار لیا گیا ہے۔ ہمارے دانشور بتاتے ہیں ہوائی جہاز کے موجد رائٹ برادران ہیں مگر خود انگریز موٴرخین اعتراف کرتے ہیں کہ رائٹ برادران سے ایک ہزار سال پہلے نامور مسلم شاعر‘ موسیقار‘ ماہر فلکیات اور انجینئر ابن فرناس یہ کارنامہ سرانجام دے چکا تھا۔ 852ء میں ابن فرناس نے قرطبہ کی جامع مسجد کے میناروں سے ایک سائنسی جبہ یا ٹراوٴزر پہن کر چھلانگ لگائی تاکہ پرندے کی طرح اڑ سکے۔ پرندے کی طرح اڑنے کا تجربہ تو کامیاب نہ ہوا مگر گرنے کا عمل سست ضرور ہو گیا اور یوں دنیا کا پہلا پیرا شوٹ ایجاد ہوا۔ 875ء میں ابن فرناس نے دوبارہ ایک پہاڑ سے چھلانگ لگائی اور اس مرتبہ دس منٹ کی اڑان بھرنے میں کامیاب رہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ زمین کو گول قرار دینے کی تھیوری گیلیلیو نے پیش کی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے500 سال قبل مسلمان ماہر ارضیات و فلکیات ابن حزم یہ ثابت کر چکے تھے کہ زمین گول ہے انہوں نے ہزاروں سال قبل زمین کے رقبے‘ قطر اور آسمان کے فاصلے سے متعلق جو اعداد و شمار دیئے جدید سائنس نے ان کی توثیق کی۔گن پاوٴڈر تو چینیوں کی ایجاد ہے مگر اس میں پوٹاشیم نائٹریٹ ملا کر دفاعی و جنگی مقاصد کے لئے بروئے کار لانے کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے۔ مسلمان15 ویں صدی تک راکٹ اور تارپیڈو تیار کر چکے تھے۔ آج مسلمانوں کو انگریزوں کی بنائی گئی موٹر کاروں میں گھومنے پھرنے کا طعنہ دیا جاتاہے اپنے حق میں آواز اٹھانے پر گدھے اور اونٹ کی سواری کا مشورہ دیا جاتا ہے مگر کوئی اس بات کو جھٹلا سکتا ہے کہ کرینک شافٹ‘ والو اور پسٹن سمیت آٹو انجینئرنگ اور دیگر مشینری کے لئے ناگزیر50 اہم ترین پرزے مسلمان انجینئر الجزائری نے ایجاد کئے؟ کیا ان اشیاء کے بغیر کوئی مشین بنانے‘ کارخانہ لگانے یا گاڑی چلانے کا تصور ممکن ہے؟ جدید کیمیا کے بانی جابر بن حیان نے بوائلنگ پوائنٹ کی بنیاد پر Distillation Process کے ذریعے مائعات کو الگ کرنے کا کارنامہ سرانجام نہ دیا ہوتا تو آج بدبو چھپانے کے لئے انواع و اقسام کے پرفیوم دستیاب نہ ہوتے۔ جعلی حکیموں کا طعنہ دینے والے جعلی دانشور کہتے ہیں تمہارا میڈیکل سائنس میں کوئی حصہ نہیں‘ تم تو سر درد کی گولی کے لئے ان انگریزوں کے محتاج ہو مگر خود یورپی دانشور تمام تر تعصب اور کینہ پروری کے باوجود بو علی سینا کو جدید طب کا بانی قرار دیتے ہیں ”القانون“ کو انجیل طب کہہ کر 500سال تک یورپ کے میڈیکل کالجز میں پڑھایا جاتا رہا۔ الظواہری نے 10ویں صدی میں 200 سے زائد سرجیکل آلات ایجاد کئے وہ ہو بہو آج بھی استعمال ہو رہے ہیں جنہیں یورپ کی ترقی پر ناز ہے انہیں یہ معلوم نہیں کہ انٹرل اسٹیچز جنہیں نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ازخود تحلیل ہو جاتے ہیں جانوروں کی آنت سے فائبر نکال کر یہ اسٹیچز یا ٹانکے لگانے کی تکنیک الظواہری نے پیش کی ۔ ولیم ہاروے سے 300 سال پہلے ابن نفیس بلڈ سرکولیشن اور انتقال خون کی تھیوری پیش کر چکے تھے۔ بالعموم ویکسین کی ایجاد کا کریڈٹ پاسچر اور جینر کو دیا جاتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ استنبول میں انگلستان کے سفیر کا بچہ اسمال پاکس کا شکار ہوا تو اس کی بیوی 1724ء میں وہاں بچوں کو لگائی جا رہی ویکسین برطانیہ لائی۔ جب لندن اور پیرس غلاظت میں لتھڑے رہتے تھے اور یورپ ابھی منہ دھونے کا روادار نہ تھا تو ان مسلمانوں نے ویجیٹیبل آئل کو سوڈیم ہائیڈروآکسائیڈ سے ملا کر صابن متعارف کرایا اور سر کے بال دھونے کے لئے شیمپو ایجاد کیا۔ 1759ء میں ایک مسلمان نے انگلستان میں Vapour Bath سینٹر کھول کر شیمپو سے نہانے کی سہولت دی تو گورے ششدر رہ گئے اسی مسلمان کو پہلے شاہ ولیم فورتھ اور پھر شاہ جارج ششم کے شیمپوئنگ سرجن کا منصب عطا ہوا۔ دنیا کا پہلا اسپتال قاہرہ میں قائم ہوا‘ دنیا کی پہلی ڈگری گرانٹنگ یونیورسٹی فاطمہ نامی شہزادی نے مراکش میں بنائی‘ بیت الخلاء کا تصور مسلمانوں نے دیا‘ ٹوتھ برش مسلمان لائے‘ چیک کے ذریعے ادائیگیوں کا نظام میرے اسلاف نے متعارف کرایا۔ نویں صدی میں کوئی بھی تاجر بغداد کے کسی غیر سودی بینک کا چیک چین میں کیش کراسکتا تھا۔
کافی کا خیال آتے ہی De Jour جیسے برانڈ دل و دماغ میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ اطالوی کافی کی چسکی لیتے ہوئے ”دانش گرد“ جگالی کرتے ہیں لسی‘ بھنگ‘ ستو اور شکر کولا پینے والوں کو کیا معلوم دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے مگر انہیں یہ معلوم نہیں کافی کا تحفہ بھی ان بدووٴں کے ذریعے یورپ تک پہنچا۔ مستند روایات کے مطابق کافی مسلم ریاست ایتھوپیا کے علاقے ”کفا“ میں دریافت ہوئی۔ایک مسلمان ترک باشندے نے لندن میں پہلی کافی شاپ کھولی۔ شطرنج کی بازی میں مگن یہ ”دانش گرد“ چال چلتے ہوئے مسلمانوں کا قومی کھیل گلی ڈنڈا قرار دیتے ہیں مگر انہیں یہ معلوم نہیں کہ شطرنج دسویں صدی کے اسپین میں مسلمانوں کے ہاں اپنی اسی شکل میں کھیلی جاتی تھی۔ شطرنج کا مہرہ ”رُخ“ دراصل ہسپانوی زبان کا لفظ ہے اور اس کھیل کو ہسپانوی مسلمانوں نے وضع کیا۔ اگر آپ معلومات کا حوالہ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو یورپ کے نہایت معتبر مصنف و موٴرخ Flip.k Hitte کی کتاب The History of the Arabs پڑھ لیں یا پھر یورپ میں 2004ء میں شائع ہونے والی کتاب ”مسلمانوں کی 1001 ایجادات“ پڑھ لیں جس کا تیسرا ایڈیشن شائع ہو چکاہے۔ اگر کتاب دستیاب نہ ہو تو چند ماہ قبل سی این این اور ”گارڈین “کی ویب سائٹ پر جو تبصرہ سامنے آیا وہی دیکھ لیں تو امید ہے کافی ”افاقہ“ ہوگا۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ اسلاف کے کارناموں پر اترانے کی ضرورت ہے نہ ”دانش گردی“ کی اس لہر سے شرمانے اور منہ چھپانے کی حاجت۔ ماضی درخشاں تھا‘ حال تاریک ہے مگر اپنی کھوئی میراث اپنا لیں تو مستقبل پھر تابناک ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین