• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب تک ترکی ان بڑی قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ تھا جو مشرق وسطیٰ اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے افغانستان میں روسی مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دھماکہ خیز صورتحال کو قابو میں رکھنے کی خاطر نئی اسٹرٹیجی وضع کر رہے تھے۔ وہ قوتیں اسٹرٹیجک کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ انہوں نے لیبیا کو قوت عمل کے لحاظ سے مفلوج کردیا ہے۔ اب وہ کسی بھی لحاظ سے اہمیت کا حامل ملک نہیں ہے۔ انہوں نے حکمت عملی کے تحت عراق کی سرزمین کو غیر مستحکم کیا ہے۔ شام اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد مرد، عورتیں، بچّے اور بوڑھے عسکری اداروں کی بمباری اور طاقت کے بڑے پیمانے پر استعمال کی بدولت شہید ہو چکے ہیں۔ شامی فوج انتشار اور افتراق کی نذر ہو رہی ہے۔ کتنی حیرت کا مقام ہے کہ دنیا نے اس طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ شام کی حکومت اب اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے، اب کسی مصالحت کا وقت گزر چکا ہے۔ تیونس اور مصر میں جو کچھ ہوا، سب کے سامنے ہے۔
ترکی، امریکا کا دوست ملک ہے اور اس علاقے میں فوجی اور معاشی اعتبار سے مستحکم ملک ہے۔ وہاں ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر وزیراعظم اردگان نے ترکی کیلئے مصیبت کھڑی کر لی ہے۔ حکومت استنبول میں GEZI پارک کی تعمیر نو چاہتی ہے لیکن عوام اس کے خلاف ہیں کیونکہ اس کی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ وہ اس کو اسی حالت میں رکھنے کے حق میں ہیں لیکن طیب اردگان بہ ضد ہیں کہ وہ پارک کی تعمیر نو کریں۔ امریکا، یورپ اور سلامتی کونسل کے ملکوں کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔
ترکی مظاہرین پر ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ مغربی، امریکی اور اسرائیلی میڈیا معاملات کو اچھال رہے ہیں۔ روز بہ روز طیب اردگان کیلئے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ترکی کو بھی غیر مستحکم کر دیا گیا تو پورا مشرق وسطیٰ سی آئی اے اور موساد کی حکمت عملی کی طرح اپنی ساکھ کو قائم نہیں رکھ سکے گا اور اسرائیل سیاسی منظر پر مرکزی مقام حاصل کر لے گا۔
طیب اردگان کی پارٹی تیسری مرتبہ بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس میں نہ کوئی مبالغہ ہے اور نہ کوئی شک کہ طیب اردگان کے دور حکومت میں ترکی نے معاشی اعتبار سے بڑی ترقی کی ہے جس کو یورپ تحسین کی نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ وہ ایک طرح سے خائف نظرآتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ترکی نے اس وقت امریکا کا ساتھ دیا جب وہ اگر ساتھ نہ دیتا تو عراق میں امریکا کبھی وہ شکست و ریخت کا تھیٹر نہ جما پاتا جو اس نے جمایا اور فکری و قومی اعتبار سے عراق کو پارہ، پارہ کر دیا۔ جس وقت امریکہ، عراق پر ہوائی حملوں کا نقشہ بنا رہا تھا، ترکی نے امریکہ کو اس یلغار کیلئے اپنی سرزمین اور اپنے ہوائی اڈّے استعمال کرنے سے روک دیا اور ہوائی حملوں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور ترکی، امریکہ کو راہ داری دینے کیلئے اور اپنے فضائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دینے پر اس وقت آمادہ ہوا جب امریکہ نے بہت بڑی رقم بطور معاوضہ اور قرضے معاف کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ترکی نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور رقم وصول کی لیکن وہ وقت امریکی حکومتیں اور پالیسی ساز بھولے نہیں تھے۔ اب ان کا ردّعمل یہ بتا رہا ہے کہ وہ ترکی کی حکومت سے انتقام لینے کے موڈ میں ہیں اور جلتی پر تیل چھڑکا جا رہا ہے۔ امریکا ہو یا یورپ وہ ترکی کو اتنا مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے جتنا طاقتور اور ایک بڑی معاشی قوت بن کر ابھر رہا ہے۔
گزشتہ دنوں ایسا بھی ہوا کہ ترکی نے اسرائیل کو اس کے ظالمانہ رویّوں پر شدید تنقید کا ہدف بنایا۔ ترکی کے لہجے میں اسرائیل کے خلاف شدّت آتی جا رہی تھی اور وہ اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھا رہا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں ترکی کا یہ رویّہ ایک ایسی اسٹرٹیجک سیاسی صورت کو جنم دے رہا تھا جو اسرائیل کے لئے امریکی پالیسی پر منفی اثرات پیدا کر رہی تھی۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف بھی ترکی کا ردّعمل شدید ہوتا جا رہا تھا۔ ترکی کی طرف سے اسرائیل کی مخالفت اسرائیل کی پوزیشن کو مستقبل میں کمزور کر سکتی تھی۔ اسرائیل کی حکومت امریکی حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں رابطے میں رہی ہے۔ امریکی میڈیا ترکی کے خلاف سخت الفاظ میں اظہار خیال کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنا دورہٴ پاکستان ملتوی کر دیا ہے اور ایسا ترکی کی بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال اور حکومت کے خلاف نہ تھمنے والے مظاہرے اور احتجاج کے سبب ہے۔ اگر طیب اردگان اور ان کی حکومت نے صبر و ضبط اور دانشمندی سے کام نہ لیا تو ترکی ناقابل فراموش عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ طاقت کا استعمال اور وہ بھی اپنے لوگوں کے خلاف کبھی ثمر آور نہیں ہوا۔ امریکا، اسرائیل اور یورپ ترکی کو ”سیکورٹی رسک“ سمجھ رہے ہیں۔ طیب اردگان اور ان کی حکومت کیلئے بہتر یہ ہے کہ وہ اس ایشو پر زیادہ مشتعل نہ ہوں اور اسے مذہبی قوتوں اور لادینی قوتوں کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔
آگ تو پورے ترکی میں پھیل گئی ہے، اس کو حکمت سے بجھانے کی ضرورت ہے اور ترکی کی اسٹرٹیجک قوت اور معیشت کو تباہ ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مظاہرین کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں۔ اگر ترکی کے خلاف سازش کامیاب ہو گئی تو پھر اگلا ہدف پاکستان ہو گا۔
تازہ ترین