• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالم لکھنے کا قطعاً کوئی موڈ نہیں تھا لیکن انسانی ارادے توریت کی دیوار سے بھی گئے گزرے ہوتے ہیں سو ہم کیا، ہماری اوقات کیا؟ حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے کہ ان پر تبصرہ کئے بغیر گزارا نہیں۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ہماری نگوڑی جمہوریت اس سانپ کی مانند ہے جس کے منہ میں ایک سے کہیں زیادہ چھپکلیاں پھنسی ہوئی ہیں، تب تک مجھے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائے جانے کی خبر کا علم نہیں تھا۔ اب میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جمہوری سانپ کے منہ میں بہت سی چھپکلیوں کے ساتھ ساتھ ایک عدد کنگ سائز چھپکلا بھی آ گیاہے۔ اس چھپکلے سے مجھے ”کوکلا چھپاکی“ والا کھیل بھی یاد آ رہا ہے جس کے بیک گراؤنڈ میں یہ گیت بھی چلتا رہتا تھا:
”کوکلا چھپاکی جمعرات آئی جے جیہڑا اگے پچھے دیکھے اوہدی شامت آئی جے“
غداری کے اس دھوم دھڑکے والے مقدمہ پر میں کیا کہوں لیکن چند سیانوں کی سن لیں۔ محمود خان اچکزئی نے میاں نواز شریف کو ملین ڈالر مشورہ دیا ہے کہ نواز شریف کالی مرغی کا صدقہ دیں، میں اس مشورے میں معمولی سی ترمیم کی اجازت چاہوں گا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ کالی مرغی کے صدقہ سے ”رد بلا“ کا امکان کم ہے۔ اس لئے وزیراعظم نواز شریف کو کم از کم ”کالے ہاتھی“ کا صدقہ دینا ہو گا۔ افسوس کہ ڈائنوسارز ختم ہو چکے ورنہ میں ”کالے ڈائنوسار“ کے صدقہ کا مشورہ دیا۔ میرا مشورہ مان بھی لیا جائے تو مسئلہ یہ ہو گا کالے رنگ کا ہاتھی ملنا ناممکن ہے۔ سو لوڈشیڈنگ کی سیاہی سے عام ہاتھی کو کالا کوکے اس کا صدقہ دیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف کسی سیاہ بخت کے بختوں کی سیاہی سے بھی ہاتھی کالا کیا جا سکتا ہے۔ کچھ بھی ہو کالی مرغی نہیں چلے گی کہ یہ کیس کالے ہاتھی سے کم کا نہیں، مشاہد حسین کا مطالبہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ وباء کی طرح پھیلتا جائے گا کہ پتہ چلنا چاہئے کن کن لوگوں نے ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا، معاہدے کئے، ان کا بھی ٹرائل ہونا چاہئے۔ مشاہد کے بیان کے بالکل نیچے ایسا ہی بیان سینئر وکلاء کی طرف سے بھی شائع ہوا ہے کہ پرویز مشرف کا ساتھ دینے والوں کا بھی محاسبہ ضروری ہے، کیونکہ یہ ”کلے بندے دا کم نئیں“۔ ادھر شیخ رشید کی سنئے جو نہ صرف ذہین ہے بلکہ بات کرنے کا سلیقہ بھی رکھتا ہے۔ شیخ صاحب نے تین سطروں میں اور اس کے علاوہ بین السطور جو کچھ کہا، لاجواب ہے اور بے حساب ہے:
”نواز شریف ”وارث“ میں چوہدری حشمت کا انجام دیکھ لیں“۔
”حکومت کو پہلے دو سال کا ٹائم دیا تھا، اب چھ ماہ گزارنا مشکل ہوں گے“۔
”میاں صاحب کو ایک بار پھر نادان دوست مروانے کیلئے تلے ہوئے ہیں“۔
یہاں منیر نیازی بھی یاد آئے جو شاید ایسے ہی کسی سچویشن کے بارے اک لازوال پنجابی نظم لکھ گئے جس کا سلیس و سادہ سا اردو ترجمہ کچھ یوں ہو گا… کچھ تو راستے بہت مشکل تھے، کچھ میرے گلے میں غم کے طوق کا بوجھ بھی تھا، کچھ شہر کے لوگ بھی بہت ظالم تھے اور کچھ یہ کہ مجھے بھی مرنے کا شوق زیادہ تھا۔ ہائی ٹریزن کیس ہے اور ٹریزن کا تعلق ”تریژری“ سے بہت گہرا ہے، یعنی ملکی خزانہ کے ساتھ ٹمپرنگ بھی غداری سے کم نہیں تو کل کوئی یہ باب کھول کر احتساب کیلئے میدان میں اتر آیا تو صفایا سمجھو کہ دلیل اور دانش دو مختلف باتیں ہیں۔ دلیل بہت حسابی کتابی چیز ہے جبکہ دانش یہ کہتی ہے کہ مار دینے سے بھگا دینا بہتر ہے لیکن مصیبت یہ کہ ”غدار“ کسی قیمت پر بھاگنے کو بھی تیار نہیں۔ زبان زدعام ہے کہ پرویز مشرف کو ”نیواں نیواں“ ہو کر چپ چاپ نکل جانے کیلئے بھی کہا گیا لیکن جو اپنی مرضی سے آیا وہ کسی اور کی مرضی سے جانے پر آمادہ نہیں کہ آدمی واقعی دلیر بلکہ دیدہ دلیر بھی ہے۔
جنرل (ر) اسلم بیگ کی اکثر باتیں مجھ جیسے کم فہم کے اوپر سے گزر جاتی ہیں لیکن پرویز مشرف پر غداری کے مقدمہ کا اعلان سن کر بہت میچور اور متوازن تبصرہ کیا۔ سابق آرمی چیف نے کہا: ”غداری مقدمہ کے حوالہ سے حکومت سنجیدہ ہے تو ایوب دور سے کارروائی کرے، ایسا پنڈورا بوکس کھلے گا کہ کوئی اپنی شکل نہیں پہچان پائے گا۔ نواز شریف ذاتی انتقام لے رہے ہیں اور انتقام لینے والی حکومتیں زیادہ دیر تک نہیں چلتیں“… لیکن صرف نواز شریف ہی کیا بے نظیر بھٹو بھی منتقم مزاج تھیں کہ یہاں مدتوں سے کوئی نیلسن منڈیلا موجود نہیں۔
"It is Far better to forgive and forget than to hate and remember"
اک اور مشورہ…
"Always forgive your enemies; nothings annoys them Quite so much"
لیکن اس کے لئے تو ہمت اور حکمت کی ضرورت ہے۔
اسلم بیگ صاحب نے بے نظیر بھٹو کی منتقم مزاجی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ”نجانے مینڈیٹ کا نشہ حکمرانوں کو مدہوش کیوں کر دیتا ہے؟ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ”بتائیں جنرل ضیاء کے قریبی ساتھی کون کون تھے؟ مجھے آہستہ آہستہ انہیں کک آؤٹ کرنا ہے“۔ تو میں نے جواب دیا: ”محترمہ! میں جنرل ضیاء کا چیف آف جنرل سٹاف تھا تو پھر آغاز مجھ سے کر لیں“ جس پر وہ خاموش ہو گئیں۔
کچھ معاملات میں ”خاموشی“ ہی بہتر ہوتی ہے، لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا… اب مقدمہ اور پھر اس کا ”منطقی انجام“… انتظار فرمایئے!
چلتے چلتے معاف کر دینے کے حوالہ سے دو اور باتیں، جارج ہربرٹ کہتا ہے:
"He who cannot forgive, breaks the bridge over which he himself must pass"
"Never does the human soul appear so strong and noble as when it foregoes revenge and dares to forgive an injury."
تازہ ترین