• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گرد کبھی عقیدے اور کبھی فرقہ پرستی کے نام پر خودکش حملوں میں جس طرح معصوم لوگوں کا خون بہاتے ہیں اس پر ہر انسانیت پرست دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ بے راہ رو، بے درد ، کٹھور اور سنگدل نہ یہ دیکھتے ہیں کہ مرنے والی سادہ لوح بلوچ بچیاں ہیں یا نماز جنازہ ادا کرتے انہی کے بھائی بند پشتون۔ اس دہشت گردی میں ہزاروں کی جانیں جا چکی ہیں لیکن پاکستان کے تجارتی اجارہ دار ، سرمایہ دار ، منافع خور اور بااثر لابیوں سے تعلق رکھنے والے معاشی دہشت گردوں سے کم نہیں ہیں۔ وہ قانون کو توڑ مروڑ کر کئی سو اربوں کی مراعات لیتے ہیں جن کی وجہ سے خزانہ خالی رہتا ہے، حکومت عوام کو ضروری سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی جس کی وجہ سے ہزاروں بچے اور غرباء روزانہ لقمہ اجل بنتے ہیں۔ اب اس ایلیٹ طبقے کو معاشی دہشت گرد کے علاوہ کیا نام دیا جائے؟ اس میں سے زیادہ تر یہ دھندہ سٹیچوری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر اوز)کے ضابطے کے تحت کیا جاتا ہے۔ فیڈرل ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کسی بھی سیکٹر کو ٹیکس میں رعایت دے سکتا ہے اس کے لئے جو آرڈر یا خط جاری کیا جاتا ہے اسے ایس آر اوز (جسے ہم مراعاتی ضابطے کہہ سکتے ہیں) کہا جاتا ہے۔ قانون دان اور معاشیات کے بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مراعاتی ضابطے (ایس آر اوز) آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔ آئین کے تحت ٹیکس لگانے کا حق صرف اور صرف پارلیمینٹ کو ہے۔ اس سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ٹیکس کم یا زیادہ کرنے کا حق بھی قوم کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہے لیکن نوکر شاہی اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اس کا ذیلی ضابطہ طے کر رکھا ہے جس کے تحت وہ کسی صنعت یا سرمایہ دار کو ٹیکس کی رعایت دے سکتا ہے۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے لیکن ابھی تک پارلیمینٹ اس پہلو کو نظر انداز کرتی آئی ہے۔
اس قدر پیچیدہ اور خشک تصور کو واضح کرنے کے لئے ہم ایک مثال کی مدد لیتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ قانون ساز اسمبلی جو قانون منظور ہوا اس میں مشینوں یا دوائیوں کی درآمد پر چالیس فیصد ٹیکس واجب قرار دیا گیا۔ ان کو درآمد کرنے والے سیکٹر نے ایف بی آر سے اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ایس آر او سے ٹیکس کی شرح چالیس سے پندرہ فیصدکرالی، اس سے حکومت کو ملنے والے ٹیکس میں پچیس فیصد کمی آ گئی۔ اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ رعایت مخصوص عرصے میں موجود سرمایہ کاروں کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ فلاں تاریخ تک درآمد کے سیکٹر میں موجود سرمایہ کار تو کم کیا ہوا پندرہ فیصد ٹیکس دیں گے لیکن اس میدان میں نئے آنے والوں کے لئے ٹیکس چالیس فیصد ہی ہو گا۔ اس کے نتیجے میں موجود گروہوں یا مخصوص سرمایہ داروں کی اس صنعت پر اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے اور وہ صارفین سے من مانی قیمت وصول کرتے ہیں۔ یہ نظام نئے آنے والوں کے خلاف انتہائی متعصبانہ ہے۔انتیس دسمبر دوہزار بارہ کو ایف بی آر کے چیئرمین علی ارشد احسان نے ”ٹیکس کلچر کا حقیقی جائزہ پیش کرتے ہوئے سینٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ ٹیکس قوانین کے تحت بااثر گروپوں اور طاقتور لابیوں کو کثیر مقدار میں ایس آر اوز کے تحت مراعات دی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے عام پبلک ان متعصبانہ ٹیکس قوانین کی بنا پر نئے کاروبار نہیں کھول سکتی۔ سارا نظام ٹیکس مراعات یافتہ طبقہ کے لئے این آر او کی طرح ہے جبکہ غریب لوگ اس طرح ٹیکس کے ماحول میں نئے کاروبار شروع نہیں کر سکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ایس آر اوز کی مدد سے طاقتور سیکٹروں نے غیر معمولی مراعات لے رکھی ہیں“۔ پاکستان اکانومی واچ کے ڈاکٹر مرتضی مغل کا کہنا ہے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ایس آر اوز جاری کرنے کی فیکٹری بن چکا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مختلف گروہوں اور افراد کو کوئی ساڑھے چار ہزار ایس آر اوز کے ذریعے ساڑھے چھ سو بلین روپے کی مراعات دی جارہی ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ اس سے قومی خزانے کو ساڑھے چھ سو بلین کانقصان ہوتا ہے۔
یہ مراعاتی ضابطے خود سرمایہ دارانہ نظام کی نفی کرتے ہیں کیونکہ سرمایہ داری کی بنیاد مقابلے اور مسابقت پر ہے۔ ہر سیکٹر میں مختلف سرمایہ کار کم سے کم قیمت پر مصنوعات پیدا کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتا ہے۔ اس میں کامیابی اسے نصیب ہوتی ہے جس کی انتظامیہ مستعد ہو اور جو پیداوار کے منفرد طریقے استعمال کرتے ہوئے ہر مرحلے کو ہوشیاری سے چلا سکے۔ سرمایہ دار جب مقابلہ کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے کم قیمت پر اپنی مصنوعات بیچنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا فائدہ صارفین کو ہوتا ہے۔ اسی مقابلے کی فضا میں صنعتیں ترقی کرتی ہیں اور ملکی معیشت کی شرح نمو میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے مقابلے کی فضا معدوم ہو جائے تو صنعتوں میں جمود آجاتا ہے اور ملکی معیشت گراوٹ کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایس آر اوز مقابلے کی فضا کو ختم کر دیتے ہیں کیونکہ رعایتی ٹیکس دہندہ سرمایہ دار کا مقابلہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایف بی آر کے چئیرمین کے سینٹ کمیٹی کے بیان سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے ۔رعایتی ٹیکسوں کے نظام سے ملکی خزانے کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے بجٹ خسارہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ خسارے کو پورا کرنے کے لئے ملک نوٹ چھاپنے اور قرضے لینے پر مجبور ہوجاتا ہے جس سے نہ صرف افراط زر آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے بلکہ ملک قرضوں کے انبار کے نیچے دب جاتا ہے۔ آج کا پاکستان اس کی بہترین مثال ہے جس میں نہ بجلی پیدا کرنے کی سکت ہے اور نہ ہی دوسری سہولتیں فراہم کرنے کی۔ ترقی کی رفتار بہت نیچے آچکی ہے جس سے ملکی معیشت تباہی کے کنارے کھڑی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پاکستانی شہریوں کے طور پر سرمایہ داروں نے مراعاتی نظام کو خودکش بمباروں کی طرح استعمال کیا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لوڈشیڈنگ کی شنوائی کے دوران بجلی اور گیس کی چوری کو غنڈہ گردی قرار دیا تھا۔ ہمارے خیال میں تو بجلی اور گیس چور بھی معاشی خودکش بمبار ہیں کیونکہ ان کی چوری کی وجہ سے بجلی ناپید ہوئی ہے جس کا شکار وہ خود بھی ہیں۔ اگر بجلی اور گیس کی چوری غنڈہ گردی ہے تو بااثر حلقوں کے لئے رعایتی ٹیکسوں کا نظام کھلم کھلا ڈاکہ زنی ہے جس میں حکومت پوری طرح شامل ہے۔ ویسے تو ٹیکس مراعات لینے والا طبقہ بھی بجلی اور گیس کی چوری میں پوری طرح ملوث ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسمگل شدہ کاروں کی عام معافی کے تحت رجسٹریشن کو ناجائز قرار دیتے ہوئے ان سب کاروں کو نیلام کرنے کا حکم دیا ہے۔ غالباً اسمگل شدہ کاروں پر عام معافی بھی کسی ایس آر او کے ذریعے کی گئی ہوگی۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کو ایس آر اوز کے تحت مراعات دینے کے پورے نظام پر پابندی لگانی چاہئے تاکہ آئین کا تحفظ ہو سکے جس میں ٹیکس لگانا (بڑھانا یا گھٹانا) صرف پارلیمینٹ کی صوابدید ہے۔
تازہ ترین