• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا کہ اگر اس اصول کے تحت اقوام متحدہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر رہی کہ کبھی یہاں یہودی آباد تھے تو پھر اسپین پر مسلمانوں نے حکمرانی کی ہے بعد میں عیسائیوں نے اسپین سے مسلمانوں کو بے دخل کیا تھا، اقوام متحدہ اسپین میں بھی مسلمانوں کو آباد کرے۔بانی پاکستان جہاں ہندوستان میں الگ وطن کی تحریک چلا رہے تھے وہیں فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی بھی شدید مذمت کرتے تھے،آزاد فلسطین بھی بانی پاکستان کا خواب تھا،یہی وجہ بنی کہ 23 مارچ 1940 کو جہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی وہیں اسی مقام پر دوسری قرارداد فلسطین کے حق میں بانی پاکستان نے منظور کی۔1948،میں جب یہودیوں نے باقاعدہ اسرائیلی ریاست کا دعوی کیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ اسرائیل ناجائز بچہ ہے ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے،بانی پاکستان کے اسی فرمان کی روشنی میں آج تک پاکستان کی خارجہ پالیسی یہی ہے کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ۔اس وقت منظر نامہ یہ ہے کہ ترکی کے صدر طیب اردوان کا کہنا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا اسرائیل کو سبق سکھائے لیکن دوسری طرف اسرائیل کا اصل سرپرست امریکا اسرائیل کی حمایت میں ہر حد تک جانے کو تیار ہے، اس نے سلامتی کونسل کا اجلاس بھی مؤخر کروا دیا ہے کیونکہ اس اجلاس میں فلسطین کے مسئلے پر بحث ہونا تھی،ایک طرف کشمیر میں بھارت کی درندہ صفت فوج عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہوئی کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے تو دوسری طرف اسرائیلی درندے فلسطین کے مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں،ایسے میں پوری امت مسلمہ اپنی قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے۔

بیت المقدس پر 1099 عیسوی سے 1187 عیسوی تک تقریباً 88 سال عیسائیوں نے حکومت کی لیکن 1187 عیسوی میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے یورپ کی متحدہ فوج کو پوری طاقت کے ساتھ شکست دی اور ایک بار پھر بیت المقدس فتح کیا،تب سے لے کر 1948 تک تقریباً 761 سال مسلمانوں نے بیت المقدس پر حکومت کی،لیکن 1948 میں فرانس، امریکا اور برطانیہ کی سازش سے فلسطین کے علاقے میں یہودی ریاست قائم ہوئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا،تب سے اب تک فلسطینی جہد مسلسل کر رہے ہیں۔ہمیں اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنی چاہئے کہ وہ ہم سب کے قبلہ اول کے تحفظ کے لئے اپنے بچوں کو قربان کر رہے ہیں،یقینا ًوہ لوگ عظمتوں والے ہوتے ہیں جو کہ قوم کے اجتماعی مفاد پر اپنا آج قربان کرتے ہیں اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر ہم آج مسجد اقصیٰ کا دفاع نہ کر سکے تو کل شاید مسجد نبوی اور بیت اللہ کا تحفظ بھی ہمارے لئے مشکل ہو جائے۔دنیا بھر میں مجموعی طور پر 80 لاکھ یہودی آباد ہیں،یعنی ایک کروڑ یہودی بھی پوری دنیا میں نہیں ہیں جبکہ مسلمان 125 کروڑ یعنی سوا ارب ہیں،وہ کم ہونے کے باوجود ہم پر حاوی ہیں۔ اس لئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم بیت المقدس کی آزادی کے لئے مستقل آواز اٹھائیں۔ فلسطین کے مسلمانوں پر عرصہ دراز سے اسرائیلی فوج ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے مگر افسوس کہ اقوام متحدہ سمیت تمام مسلم ممالک آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مذمت کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہوگیا جبکہ سلام ہے فلسطینی بہنوں اور بھائیوں پر جو اسرائیلی فوج کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔مسلمان ممالک نمازوں میں دعا کرکے اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں مگر فلسطینی لوگوں کی مدد کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھاتے بلکہ بہت سے مسلم ممالک تو اسرائیل کو تسلیم کربیٹھے اور اور کچھ تسلیم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ آگ جس کے گھر لگتی ہے نقصان کا اسی کو پتہ ہوتا ہے باقی لوگ تو باہر سے تماشہ دیکھتے ہیں۔ جمعتہ الوداع کے موقع پر نماز کی ادائیگی کے لئے ہزاروں فلسطینی مسجد اقصیٰ پر جمع ہوئے اور مسجد کے باہر احاطے میں نماز ادا کی۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور روایتی جارحیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کو مسجد کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے نمازیوں پر ربڑ کی گولیاں برسائیں، آنسو گیس کی شیلنگ کی اور کریکر پھینکے جس سے 200 سے زائد فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم نے ایک اور تاریخ رقم کردی۔بے رحم اسرائیلی فورسز نے غز ہ پر فضائی بم برسا دیے۔ بچوں سمیت متعدد افراد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد فلسطین کی مزاحمتی تنظیم ’’حماس‘‘نے مسجد الاقصیٰ کی بے حرمتی پر جوابی حملہ کیا۔ مقبوضہ بیت المقدس سے سو کلومیٹر دور غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر میزائل داغے۔ حملے کے خوف سے اسرائیلی پارلیمنٹ کو خالی کروالیا گیا۔ حماس نے ٹینک شکن میزائل سے اسرائیلی فوج کی گاڑی بھی تباہ کر دی۔ حماس کے حملے کے خوف سے انتہا پسند یہودیوں کو مسجد الاقصیٰ میں داخلے کا فیصلہ بھی ترک کرنا پڑا اور وہ مسجد الاقصی کے دروازے سے واپس لوٹ گئے۔

فلسطین میں جوظلم ڈھائے جارہے ہیں اس پر مسلم امہ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کیا مسلمان اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے بیت المقدس کی حفاظت بھی نہیں کرسکتے؟ کہاں 313 مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤ لشکر کو اس کی تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کر دیااور کہاں ہم مسلمان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کفار سے مار کھارہے ہیں۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے مگر مسلمان ہیں کہ وہ خود لات کھارہے ہیں مگر دشمنوں سے صرف باتوں تک محدود ہیں۔

تازہ ترین