• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ باتیں خود نون لیگ کے حامی بھی کرتے نظر آئیں گے کہ شہباز شریف کامیاب ایڈمنسٹریٹر اور نواز شریف کامران سیاسی قائد ہیں گویا دونوں کا مجموعہ مسلم لیگ کی سیاسیات سے روحانیت اور حکومتی سیاست سے اپوزیشن سیاست تک کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔ لگ بھگ یہی خیال مسلم لیگ نون مخالف لوگوں کے بھی ہیں۔ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کے بعد مریم نواز کو نون لیگ کے مستقبل کے طورپر تراشا گیا اور اب مریم کا ایک واضح سیاسی سحر بہرحال موجود ہے۔ لیکن اس بات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ جیسے مادہ ٹھوس، مائع اور گیس میں تبدیل ہوتا ہے کم و بیش ایسے ہی سیاسی پارٹیاں عام طور پر تین حالتوں یعنی انتخابی سیاست، نظریاتی سیاست اور مزاحمتی سیاست میںپائی جاتی ہیں۔ ایک اہم بات کہ منزل و مقصد اقتدار ہی ہوتا ہے لیکن نہایت ہی ترش بات یہ کہ کوئی مقتدرہ کے خلاف جتنا جاندار ہو اسٹیبلشمنٹ اتنے ہی دل و جان سے اسے مطیع بنا کر دم لیتی ہے اور ایسا پاک سیاست میں بار ہا ہوا!

جمہوریت 507قبل ازمسیح ایتھنز میں متعارف ہوئی جبکہ جدید جمہوریت کا باپ جارج واشنگٹن کو قرار دیا جاتا ہے۔ بہرحال جمہوریت ، براہ راست طرز جمہوریت، نمائندگان طرز جمہوریت، آئینی طرز جمہوریت اور نگہبان طرز جمہوریت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ کچھ اقسام اس کے علاوہ بھی ہیں لیکن ہر صورت میں جمہوریت کا اہتمام اور انتظام عوام کی مرضی کی حکومت قائم کرنا ہے۔ میں اکثر عوام کے حوالے سے یہ بھی سوچتا ہوں کہ جمہوریت کی شفافیت اور رفاقت عوام کے جذبوں اور فہم و فراست پر بھی بہت انحصار کرتی ہے۔ جہاں قیادت نے صداقت عامہ کے بجائے من پسند سچ اور اظہار خیال تراش لئے ہوں وہاں عوام کیلئے اپنے لیڈر کی نیت اور صداقت پھر مقتدرہ کی ’’محبت‘‘ کی گہرائی اور اونچائی کو سمجھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے بھلے ہی آئین میں 62اور 63کی دفعات موجود ہوں۔ جہاں اقامہ سزا بن جائے اور فارن فنڈنگ کیس نیب اور اہلِ نظر کی موجودگی میں بھی زیر غور نہ آئے وہاں منتظمین جمہوریت پر داغ بھی ہے بہرحال اس کی تصدیق و تحقیق ہر اس پارٹی کا فرض ہے جو نظریہ اور جمہوریت کے نام پر سیاست کرتی ہے۔

یہ کوئی عجوبہ نہیں کہ ہر ریاست حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف تقسیم ہوتی ہے لیکن جہاں تقسیم جمہوریت اور آمریت میں ہوجائے وہاں ’’تبدیلی‘‘ کی راہ چننا ضروری ہوتا ہے۔ جمہوریت کو زیب داستان میں ’’اوور‘‘ لے جانا یا آمریت کو ہوس اقتدار میں ’’اوور‘‘ لے جانا ملک و ملت کے حق میں بہتر نہیں رہتا۔ بہرکیف یہاں جو بات نون، شین اور میم سے شروع ہوئی اس تناظر میں عرض یہ ہے کہ نون لیگ کے اس دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے جس میں مزاحمت اور نظریات کے رنگ مغلوب اور انتخابی سیاست کے غالب ہو چکے۔ شاید پیپلز پارٹی میں نون لیگ سے بھی پہلے یہی رنگ ابھر چکے تھے تاہم پیپلز پارٹی اس حد تک تو سو فیصد درست تھی کہ پی ڈی ایم ضمنی اور سینٹ انتخابات کا بائیکاٹ بالکل نہ کرے۔ چشم فلک نے سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب اور کے پی میں نون لیگ کی فتوحات اور تحریک انصاف کی شکست کی سیریز دیکھی۔ پیپلز پارٹی اپنے سیاسی فہم کا اورکیا ثبوت فراہم کرے؟ سندھ میں پیپلزپارٹی نے کے پی اور پنجاب کی حکومتوں سے کہیں زیادہ ترقیاتی و تعلیمی و صحت کے کام کئے، یہ سب میڈیا یا صاحبان نظر کو دکھائی نہ دے تو پیپلز پارٹی اور کیا کرے؟ بلاول بھٹو ایک میچور اسٹیٹس مین کے طور پر ابھرے ہیں جسے نون لیگ اور دیگر تمام تر سیاسی حلقوں نے بھی تسلیم کیا ہے تو بلاول اور کیا کرے؟

یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن ایک بات یہ کہ پنجاب میں اب زمانہ کہے کہ بزدار کو پنجاب کا شہباز لگایا گیا مگر پیپلزپارٹی و تحریک انصاف و نون لیگ سمیت سارا عالم اب یہ کہے ’’مگر بزدار شہباز لگ نہیں سکا‘‘ تو اور شہباز کیا کرے؟ اب وقت نے شہباز کو ایک دفعہ پھر اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے نون لیگ کو جیسے پنجاب میں ترقیاتی سہرے سے نوازا اب مرکز کی طرف بھی ایسا ہی قدم بڑھایا جائے۔ آج کی پنجاب و کے پی اور وفاقی حکومت کو جن ترقیاتی و انتظامی ناکامیوں کا سامنا ہے وہ سابق پنجاب اور موجودہ پنجاب، پرانا پاکستان اور نیا پاکستان کے موازنے اور کسوٹی سے اور عیاں ہونے لگی ہے اور جب سیاست کے میدانوں میں انتخابی کھیل شروع ہوتے ہیں تو عوام کا ایک بڑا طبقہ جسے فلوٹنگ ووٹرز بھی کہا جا تا ہے وہ ترازو میں کام اور انجام کا وزن کرنا شروع کردیتا ہے۔ سو اب بہتر یہ ہوگا نون لیگ شہباز شریف کی عملیت پسندی کو دیکھے اور کچھ عرصہ کیلئے جذباتی سین موخر کردے۔ لگتا ہے یہ ترقیاتی تاریخ ہی نون لیگ کی بقا ہے جذبات کا سحر یا مزاحمت کی سیاست کا فی الحال وقفہ ضروری ہو چکا اور شہباز شریف درست ٹریک کی جانب بڑھ چکے۔ مریم نواز شریف کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا مگر جید سیاسی اکابرین مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو اس حد تک معاملہ فہم نہیں سمجھتے جس حد تک میاں شہباز شریف کو مانتے ہیں۔ پنجاب میں نون لیگ اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت مصدقہ سے بھی آگے والی بات ہے مگر ’’ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں‘‘ والے معاملے کو سیاست میں فراموش کرنا ممکن نہیں۔ بےنظیر بننے کا عزم قابلِ ستائش سہی مگر بےنظیر رہنا بھی ضروری ہے۔ شہباز ہی ہے جو کےپی، سندھ، بلوچستان، گلگت۔ بلتستان اور کشمیر تک نون لیگ کو وسعتیں بخش سکتا ہے اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی پارلیمانی قوت کو کوئی رخ دے سکتا ہے جو شاہد خاقان اور احسن اقبال کے بس کا روگ نہیں۔ یہ سچ ہے کہ کسی نون سے کوئی شین نہیں نکلے گی مگر یہ بھی سچ ہے کہ نواز و شہباز سے شریف خاندان مریم و حمزہ نسل میں بھی ساتھ ساتھ داخل ہو چکا۔ جو روایات اور تربیت (سیاسی و غیرسیاسی سے نیم آمرانہ و مقتدری محبت تک) میاں شریف دے چکے اگر وہ نون و شین و میم نہ رہی تو پنجاب میں وہی ہوتا رہے گا جو 2018میں آپ کے ساتھ اور 1988، 1993 اور 2008میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا، اس کی تاب پھر نون لیگ شاید نہ لا سکے!

تازہ ترین