• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے، جس نے ہمیشہ کٹھن حالات میں پاکستان کی مدد کی ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سی پیک گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس عظیم منصوبےکے مکمل ہونے سے پاکستان میں خوشحالی اور استحکام آئے گا اور لاکھوں ملازمتیں پیدا ہوگی۔ پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہاہے۔امریکہ سی پیک کی تکمیل کے راستے میں بھارت کی طرح ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت ابھی تک عوام کو معاشی مسائل کے گرداب سے نہیں نکال سکی۔ تمام وسائل کا رخ بڑے شہروں کی طرف موڑد یا گیا ہے۔ پائیدار ملکی ترقی کےلئے ضروری ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاق معیشت کیا جائے۔بائیس کروڑ عوام کے مسائل حل کرنا موجودہ حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ پاکستان ریلوے کی جانب سے تمام مسافر ٹرینوں کی نجکاری کا فیصلہ تشویشناک اور لمحہ فکریہ ہے۔ تبدیلی سرکار عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور اداروں کا خسارہ ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔پی آئی اےاور اسٹیل مل سمیت تمام ادارے اب بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کے دور میں ریلوے، اسٹیل مل اور دیگر اداروں میں سیاسی بھرتیاں کی گئیں۔ جس سے گھوسٹ ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ گھوسٹ ملازمین سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں۔ ان کی جگہ اہل افراد کی بھرتی ہونی چاہئے تھی یہی افراد اداروں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام کو زبانی کلامی اقدام اور تبدیلی کی خواہش سے مزید بہلایا نہیں جاسکتا۔اب عوام محض باتیں نہیں بلکہ عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ قومی اداروں کی نجکاری سے ہزاروں لاکھوں افراد کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا۔ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ کے دوران بیرونی سرمایہ کاری میں براہ راست 32فیصد کمی ہوچکی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اب حکومت کے اتحادی بھی تنقید کے نشتر چلارہے ہیں۔ مہنگائی اتنی ہوچکی ہے کہ غریب عوام کےلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ نصف سے زائد آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کرپشن کے کئی معاملات سامنے آچکے ہیں۔ ادویات کے بعد گندم کا ا سکینڈل، چینی کا بحران، آٹے کی قلت، پٹرولیم مصنوعات کا اسکینڈل، رنگ روڈ منصوبہ اور اس قسم کے درجنوں معاملات قوم کے سامنے آچکے ہیں جن میں حکومتی افراد ملوث تھے مگر کسی کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ نیب جن افراد پر بھی کیس بناتا ہے، وہ عدالتوں سے عد م ثبوت کی بنا پر آزاد ہوجاتے ہیں۔حکومت اب تک146کھرب روپے کے قرضوں کا بوجھ عوام پر لاد چکی ہے۔ حکومت نے رواں سال 10ارب 19کروڑ 6لاکھ ڈالر کا قرضہ حاصل کیا ہے۔ حکومت معاشی اعدادو شمار بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہےجبکہ ماہرین معیشت حکومت کے تمام دعوؤں کی نفی کررہے ہیں۔

پاکستان کی معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ امریکی حکام کی جانب سے پاکستان کے افغانستان میں فوج کی موجودگی برقرار رکھنے کےلئے زمینی اور فضائی راستے دیئے جانے والے بیان سے بھی پوری پاکستانی قوم میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ۔ امریکہ کو فضائی اور زمینی راستے دینے کی خبریں پاکستان کی خود مختارخارجہ پالیسی پر ایک بڑ ا سوالیہ نشان ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو تفصیلات قوم کے سامنے لانی چاہئیں۔ سی پیک کے باب میں امریکی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔سابق ڈکٹیٹرکے دورکی اس پالیسی کا خمیازہ قوم بھگت چکی ہے۔پاکستان ایک خود مختار ریاست ہے مگر بد قسمتی سے گزشتہ 70برسوں سے یہ امریکہ کے تابع رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ایسے لوگوں کا بر سر اقتدار آناتھا جو پاکستان کی بجائے امریکہ کے زیادہ وفادار رہے۔ عمران خان وزیر اعظم بننے سے قبل قوم کو خود انحصاری کا بڑا درس دیتے تھے آج وزیر اعظم بن کر وہی کچھ کررہے ہیں جو ان سے پہلے والے حکمران کرتے رہے۔ نائن الیون کے بعد جس طرح امریکہ نے دنیا میں تباہی مچائی اور لاکھوں افراد کو لقمہ اجل بنایا، اس ا مریکی دہشت گردی کی مثال کہیں نظر نہیں آتی۔پاکستان حقیقی معنوں میں خود مختار ملک تب بنے گا جب ہمارےحکمران قومی مفاد کو ترجیح دیں گے۔ قومی مفاد کو ترجیح دیے بغیر پاکستان خوشحالی و ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا ۔

تازہ ترین