ریاضی بڑا دلچسپ مضمون ہے ،اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ایک اور ایک دو ہوتے ہیں گیارہ نہیں ہوتے۔ پارلیمان میں اکثریتی عدد حاصل کرنے سے لے کر بینک میں موجود روپوں کی تعداد تک ،جو بات ریاضی سے ثابت ہو جائے سمجھ لیجئے وہی حتمی سچائی ہے ۔لیکن کیا واقعی ایسا ہے ؟ آج سے اڑھائی ہزار پہلے ایک یونانی فلسفی نے چند ایسے معمے پیش کئے جن کی وجہ سے ریاضی کی ”حقانیت“ پر شک آ گیا ۔ان میں سے دو نہایت دلچسپ ہیں:
فرض کریں کہ دنیا کے تیز ترین ایتھلیٹ کا مقابلہ مجھ ایسے سست الوجود سے ہو جائے تو دوڑ کون جیتے گا ؟ظاہر ہے کہ ایتھلیٹ ہی جیتے گا،بلکہ سارا گاؤں بھی مر جائے تب بھی میں نہیں جیت سکتا!لیکن اگر یہ دوڑ1000 میٹر کی ہو اور ایسے شروع کی جائے کہ میں اپنے مد مقابل سے 100 میٹر آگے کھڑا ہو جاؤں تو اس صورت میں فاتح کون ہوگا ؟ذرا سوچئے۔ جب دوڑ شروع ہوگی تو سو میٹر آگے کھڑا ہوا شخص (جسے ہم الف تصور کر لیتے ہیں ) ہمیشہ اس شخص سے آگے ہی رہے گا جس نے سٹارٹ پوائنٹ سے بھاگنا شروع کیا تھا (اس شخص کو ب تصور کیجئے ) ۔اس کی وجہ نہایت حیرت انگیزہے۔دوڑ شروع ہونے کے 10سیکنڈ بعد الف 100 میٹر سے آگے نکل چکا ہوگا جبکہ ب 10سیکنڈ بعد وہا ں پہنچے گا جہاں سے الف نے شروع کیا تھا ،اگلے 10سیکنڈ میں الف کچھ اور فاصلہ طے کر لے گا جبکہ انہی 10سیکنڈ میں ب اس نقطے کو چھوئے گا جہا ں 10سیکنڈ پہلے الف موجود تھا ،اب بھی وہ الف سے پیچھے ہی رہے گا ،اور پھر ہمیشہ پیچھے ہی رہے گا کیونکہ جب بھی ب اس مقام تک پہنچے گا جہاں الف موجود تھاتواس دوران الف کچھ مزید فاصلہ طے کر لے گا ،چاہے وہ فاصلہ ایک میٹر کا ہزارواں حصہ ہی کیوں نہ ہو!لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔اس کا مطلب کیا ہے ،کیا ریاضی غلط ہے یا ہم کسی غیرحقیقی دنیا میں رہ رہے ہیں ؟
اسی فلسفی کا دوسرا معمہ نسبتاً آسان مگر اتنا ہی دلچسپ ہے ۔فرض کریں آپ لاہور میں رہتے ہیں اور آپ نے ماڈل ٹاؤن پہنچ کر میٹرو بس پکڑنی ہے اور آپ کے گھرسے سٹاپ تک کا فاصلہ 1000میٹر ہے تو آپ یہ فاصلہ کیسے طے کریں گے ؟ ظاہر ہے کہ 1000میٹر طے کرنے کے لئے پہلے 500میٹر طے کریں گے ،500میٹر طے کرنے کے لئے 250میٹرپیدل چلیں گے ،250میٹر سے پہلے 125میٹراور اسی طرح ایک میٹر چلنے سے پہلے ایک فٹ کا فاصلہ طے کریں گے اور پھر اس فٹ کا ہزارواں حصہ اور پھر اس کا ہزارواں حصہ ،حتّی کہ یہ لا متناہی سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور میٹرو چھٹ جائے گی ۔حقیقت میں یہ بھی نہیں ہوتا ،آپ اپنے گھر سے نکلتے ہیں اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے 1000میٹر کا فاصلہ با آسانی طے کر لیتے ہیں ۔سوال پھر وہیں کا وہیں،کیا ریاضی غلط ہوئی یا جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں وہ فریب نظر ہے ؟
ان معمو ں کا خالق عظیم فلسفی زینو تھا جو 490قبل مسیح میں پیدا ہو ا۔دو ہزار سال تک اس فلسفی کے پیش کردہ سوالات دنیا کے لئے معمہ بنے رہے ۔بالآخر ریاضی دانوں کو ان معموں کا شافی جواب دینے کے لئے ریاضی میں ایک نیا تصور لانا پڑا جسے Limitsکہتے ہیں ۔سادہ زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مقدار جو صفر کے قریب پہنچتی ہے مگر صفر نہیں ہوتی تو اسے محدود( Limit) کرکے صفر ہی تصور کیا جائے ۔مثلاً 1.9999999کا مطلب 2.0ہے ۔اس تصور کی مدد سے زینو کا معمہ حل ہو جاتا ہے کیونکہ ان معموں میں وقت اور فاصلے کو لا محدود دفعہ تقسیم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ریاضی اور حقیقت میں تضادنظر آتا ہے ۔ہماری دوڑ کے مقابلے میں ب اس وقت الف سے آگے نکل جائے گا جب دئیے گئے وقت میں الف کا طے کردہ فاصلہ صفر تک محدود ہو جائے گا ،اسی طرح میٹر بس پکڑنے کے لئے جب کم سے کم فاصلہ صفر تک محدود ہو جائے گا تو آپ کا سفر شروع ہو جائے گا اور آپ با آسانی میٹر و سٹیشن پہنچ سکیں گے اور بیس روپے میں کئی گھنٹے ائیر کنڈیشن بس میں گذار سکیں گے ۔لوڈ شیڈنگ کا اس سے اچھا توڑ کیا ہو سکتا ہے !
یہ تمام فلسفیانہ موشگافیوں بیان کرنے کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ ہماری زندگیوں میں اتفاقات کیوں ہوتے ہیں اور کیا یہ واقعی اتفاقات ہی ہوتے ہیں یا ہماری منصوبہ بندی کا کوئی نقص ہوتا ہے ؟ جیسے الیکشن سے صرف چار دن پہلے عمران خان لفٹر سے گر کر چھ ہفتوں کے لئے بستر سے جا لگے ،کیا یہ بھی محض اتفاق تھا ؟ (کوئی سازشی تھیوری نہیں ،پلیز)۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے دوبارہ ریاضی کا سہارا لینا پڑے گا۔ Limitsسے ملتا جلتا ایک اور تصور Probabilityکا ہے ۔لوڈو کھیلتے ہوئے اس بات کا کتنا امکان ہوتا ہے کہ ایک شخص کا ہمیشہ چھ ہی آئے گا جبکہ دوسرا ہمیشہ سانپ سے ڈسا جائے گا !ایسا نہیں ہوتا ،Probability Theoryہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر کسی ریوالور کے چیمبر میں ایک گولی ہو اور کوئی شخص اس کا چیمبر گھما کر ریوالور اپنی کنپٹی پر رکھ کر ٹریگر دبائے تو اس بات کا کتنا امکان ہے کہ پہلے دفعہ میں ہی اس کی کھوپڑی اڑ جائے گی !زندگی لامتناہی امکانات کا نام ہے ،ممکن ہے ایک فوجی کو جنگی محاذ پر لڑتے ہوئے خراش بھی نہ آئے اور جب وہ چٹھی پر گھر آئے تو کیلے کے چھلکے سے پھسل کر ٹانگ تڑوا بیٹھے اورہمیشہ احتیاط سے سڑک پار کرنے والا شخص بھی کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے ۔ان تمام باتوں کے لا محدود امکانات موجود ہیں مگر Probabilityکے مطابق احتیاط سے سڑک پار کرنے والے لوگ ان لوگوں کے مقابلے میں حادثے کا کم شکار ہوں گے جو لا پرواہی سے سڑک پار کرتے ہیں ۔تاہم حادثے کی شرح کو صفر نہیں کیا جا سکتا چاہے جتنی مرضی احتیاط برت لی جائے مگر Limitکے قانون کے مطابق اسے صفر کے قریب لا کر حادثے کے امکان کو محدود کیا جا سکتا ہے ۔
عمران خان نے ایک دن میں کئی کئی جلسے کئے ،ان جلسوں میں احتیاطی تدابیر کا اندازہ وہ ویڈیو دیکھ کر با آسانی لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ لفٹر پر چڑھتے اور گرتے نظر آتے ہیں ،اس کے بعد جس طرح انہیں ڈولی ڈنڈا کر کے گاڑی میں ڈالا گیا اس نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ گردن کی انجری کے مریض کی پہلی احتیاط یہ ہوتی ہے کہ گردن کو ہلنے نہ دیا جائے جبکہ عمران خان کے کیس میں یہ سنگین بد احتیاطی کی گئی ۔اسی طرح ایک آدھ جلسے میں وہ بیک سٹیج سے چھلانگ مار کر بھی اترے جو ان جیسے سپورٹس مین کے لئے نارمل بات ہوگی مگر ان ساری بے احتیاطیوں کو اگر ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عمران خان کی انتظامی ٹیم نے اپنے لیڈر کے حادثے کے امکانات کو محدود کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔فرض کریں کہ ایک ایسی صورتحال ہوتی جس میں تمام احتیاطی تدابیر کی جاتیں تو اس صورت میں بھی حادثے کا امکان تو بہرحال رہتا کیونکہ وہ صفر کبھی نہیں ہو سکتا مگر عین ممکن ہے کہ یہ حادثہ نہ ہوتا ۔ہم لوگ چونکہ وجوہات تلاش کرنے کے عادی نہیں اور اگر تلاش کریں بھی تو آ جا کے کسی سازش پر تان ٹوٹتی ہے اس لئے ہم ”اتفاق،بد قسمتی اور نظر لگ گئی “ جیسے تین چار الفاظ بول کر دل کو تسلی دے دیتے ہیں ۔ہماری زندگی میں ہر قسم کے حادثات رونما ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کا امکان موجود رہتا ہے مگر ان حادثات کے امکانات کو باریک بینی سے کی گئی منصوبہ بندی اور احتیاط سے محدود کیا جا سکتا ہے ۔لوگ پاکستان سے کینیڈا کیوں منتقل ہوتے ہیں اس لئے کہ وہاں کی حکومت نے انسانوں کی زندگی میں رونما ہونے والے ”بد قسمت“ واقعات کے امکانات کو محدود کر رکھا ہے ۔یہی ریاضی ہمیں سکھاتی ہے ،اسی کو Limitکہتے ہیں اور یہی Probabilityہے ۔